کیے ہیں نور سے روشن جہاں پتھر مدینے کے
ہیں لگتے مثل ماہ و کہکشاں پتھر مدینے کے
ہر ایک جانب سے آتی ہے صدا اللہ اکبر کی
یہ لگتا ہے کہ دیتے ہیں اذاں پتھر مدینے کے
کروں گا ہر گھڑی باتیں میں ان سے اپنے آقا کی
اگر بن جائیں میرے ہم زباں پتھر مدینے کے
اگر ہو تیرے دل میں عشق کی معراج کا جذبہ
تو جھک کر چوم لے اے آسماں پتھر مدینے کے
اگر مل جائیں بوسے کو تو یہ ان کی نوازش ہے
کہا ں میرے لب عاصی کہاں پتھر مدینے کے
چھپا لوں اپنی آنکھوں میں کہ دل میں دوں جگہ ان کو
بتا اے آرزو رکھوں کہاں پتھر مدینے کے
دھڑک اٹھیں گے کرب غم سے شہرت یہ بھروسہ ہے
سنیں گے جب ہماری داستاں پتھر مدینے کے