گلوں کو ہوتی ہے جیسے بہار سے نسبت
اسی طرح سے ہے اپنی مدار سے نسبت
ڈبو نہ پائے گا اس کو کبھی کوئی طوفاں
میرے سفینے کی ہے دم مدار سے نسبت
سبھی نے پایا ہے فیضانِ مصطفیٰ ان سے
بتاؤ کس کو نہیں ہے مدار سے نسبت
نہ سمجھے بے کس و مجبور یہ زمانہ ہمیں
ہماری ہے بڑے با اختیار سے نسبت
در مدار سے تم رکھنا رابطہ اپنا
ہو جوڑنی جو نبی کے دیار سے نسبت
تمام عمر نہ کھایا نہ کچھ پیا جس نے
ہے ہم غریبوں کی اس روزہ دار سے نسبت
اجڑ گیا تھا جو کرب و بلا کی دھرتی پر
مدار کی ہے اسی لالہ زار سے نسبت
ملا ہے دوستو جس دن سے درد عشق مدار
ہوئی ہے دل کو سکون و قرار سے نسبت
ہمیشہ چمکے گا مصباح کہکشاں کی طرح
ہے اس کو تیری گلی کے غبار سے نسبت