ہجر طیبہ میں جب کہا طیبہ
کھینچ کے انکھوں میں آگیا طیبہ
ہیچ ہے پھر ہر ایک نظارہ
بس دکھا دے مجھے خدا طیبہ
دل کو کہہ کہہ کے یہ تسلی دی
دیکھ ناداں وہ آگیا طیبہ
اور ہیں جن کے ہیں سہارے اور
ہے فقط اپنا آسرا طیبہ
باغ جنت نہ چاہیے مجھ کو
راس آئی تیری فضا طیبہ
کیوں پریشان ہو اے چارہ گرو
ہر مرض کی ہے جب دوا طیبہ
دلکشی منظروں کی ختم ہوئی
دل میں جب سے سما گیا طیبہ
دونوں ہیں مرکز نگاہ جنوں
دل نشیں کعبہ دل ربا طیبہ
ہے ہر اک دل کی آرزو جنت
ہے میرے دل کی التجا طیبہ
تیری جنت میں جی نہیں لگتا
چلا رضوان میں چلا طیبہ
ہائے کر کے میں رہ گیا محضر
جب چلا کوئی قافلہ طیبہ