ہجر طیبہ میں لٹانے کو ہے گو ہر بادل
اپنی پلکوں میں چھپائے ہے سمندر بادل
سوئے طیبہ ہے رواں دوش ہوا پر بادل
دیکھ لگتا ہے مقدر کا سکندر بادل
نارسی کا مری قسمت کی اڑاتا ہے مذاق
جو گرجتا ہے مجھے دیکھ کر اکثر بادل
جن سے ساون کی گھٹائیں بھی ہیں نادم نادم
ہیں وہ سرکار کے گیسوئے معنرر بادل
ہر طرف ظلم کی گھنگور گھٹا چھائی ہے
ڈھونڈتا پھرتا ہے فاروق کو گھر گھر بادل
وہ ہی شورش و ہی پیچل و ہی جلوے رنگت
ہو بہو حسن بلالی کا ہے پیکر بادل
منجمد ہو گئے ہیں اشک غم ہجر نبی
کوئی دیکھے تو کبھی ہاتھ سے چھو کر بادل
تو چلا ہے جو مدینے غم تنہائی نہ کر
ساتھ لے لے مرے ارمانوں کا لشکر بادل
کبھی مکے میں برستا کبھی طیبہ جا کر
کاش مل جاتا مجھے تیرا مقدر بادل
تشنگی ہے غم طیبہ کی کہ بجھتی ہی نہیں
پی گیا ویسے تو ہے سات سمندر بادل
یوں برسنا کے قدم چوم لے سیلاب فرات
پیاسا ہے لخت دل ساقی کوثر بادل
ان کی مرضی ہو جو مصباح ” تو کچھ دور نہیں
ارض طیبہ میں پہونچ جاؤں میں بن کر بادل