ہر ایک خوشی اس کے قدموں پہ نچھاور ہے
کربل کے شہیدوں کا غم جس کو میسر ہے
آغوش امامت میں تاباں مہ انور ہے
شبیر کے ہاتھوں پر معصوم سا اصغر ہے
زانو پہ لئے شہ کو خود سبط پیمبر ہے
سورج کی طرح روشن اب حر کا مقدر ہے
شبیر سے بھائی کا نیزے پہ کٹا سر ہے
زینب کیلئے کتنا پر درد یہ منظر ہے
اک حشر سا بر پا ہے دنیائے جوانی میں
شبیر کے کاندھوں پر لاش علی اکبر ہے
روداد بتاتی ہے یہ شام غریباں کی
زینب ترا جیون کیا دکھ درد کا ساگر ہے
اے ظالموسوچو تو انجام میں کیا ہوگا
پیاسا ہے جسے رکھا وہ وارث کوثر ہے
بھائی تو بہت دیکھے دنیا کی نگاہوں نے
تمثیل کہاں تیری عباس دلاور ہے
یہ مدح حسینی کی تاثیر کوئی دیکھے
“مصباح ” کے ہاتھوں میں جامِ مئے کوثر ہے