غم کا آئے جو طوفان جب بھی مشکل میں ہو جان
ہم سبھی کا ہے بس ایک نعرہ ہم کو شبیر کا ہے سہارا
ہم نہ دارا کے ہیں نہ سکندر کے ہیں ہم حسینی حسین ابن حیدر کے ہیں
حر کے ہیں قاسم و عون و اکبر کے ہیں چھ مہینے کے معصوم اصغر کے ہیں
ہم علی کے ہیں دیوانے اہل بیت کے مستانے ہم کو گھر مصطفی کا ہے پیارا
جو حسین ابن حیدر کا غدار ہے نار دوزخ میں جلنے کو تیار ہے
شاہ کربل کا جو بھی وفادار ہے جنتی ہے وہ جنت کا حقدار ہے
وہ ہیں جنت کے سردار ہم ہیں عاصی اور بدکار اپنا دار و مدار ان پہ سارا
کر کے امت پہ احسان دینے چلا دین حق کے لیے جان دینے چلا
ہے سکینہ جو پیاسی اسی کے لیے دیکھو عباس اب پانی لینے چلا
چھائی غم کی کالی رات کاٹے اس کے دونوں ہاتھ پھر بھی وہ شخص ہمت نہ ہارا
فاطمہ بی کے پیارے چلے آئیے اے علی کے دلارے چلے آئیے
کہتے ہیں غم کے مارے چلے آئیے بے کسوں کے سہارے چلے آئیے
ہم ہیں بے کس اور مجبور رنج و درد و علم سے چور جگ میں کوئی نہیں ہے ہمارا
دیکھیے تو شجر کتنا رنجور ہے کتنا بے کس ہے بے بس ہے مجبور ہے
چھائی ہیں ہر طرف ظلم کی آندھیاں درد و رنج و الم سے بڑا چور ہے
تم سے کرتا ہے فریاد اس کی کر دیجیے امداد کہتا رہتا ہے یہ غم کا مارا