ہوئیں ان کی ایسی نوازشیں کہ غموں کا رخ ہی بدل گیا
یہ کرم مدار جہاں کا ہے کہ میں گرتے گرتے سنبھل گیا
کوئی آئی جب بھی کٹھن گھڑی تو پھر ہم نے تیری دہائی دی
تیری نسبتوں کا بھرم رہا اور ہمارا کام بھی چل گیا
نہ پڑے گی اس پہ گری نظر نہ پھرے گاوہ کبھی در بہ در
جو عقیدتوں کے سرور میں ترے آستاں پہ چل گیا
تو خدا کی خاص ہے مرحمت میں تیرے نثار اے علی صفت
ترا نام جب بھی لیا گیا تو ہر ایک حادثہ مل گیا
تو ہے دوران کے دیار سے تجھے سوئے ظن ہے مدار سے
تیری سب عبادتیں رائیگاں تیرا سارا حسن عمل گیا
جو ملا وہ تیرے وسیلے سے جو ملے گا وہ بھی ترے سبب
تجھے کیسے داتا کہوں نہ میں تیری روٹیوں پہ میں پل گیا
جسے مل گئیں تیری نسبتیں اسے ڈھونڈتی ہیں مسرتیں
ترا طوق جس نے پہن لیا وہ حصار غم سے نکل گیا