ہیں بد سے بھی بدتر مرے اعمال مدینہ
کیا آؤں ترے پاس بایں حال مدینہ
یوں تو ہوں میں اک مفلس و کنگال مدینہ
آنسو ہیں فقط میرے زر و مال مدینہ
میں اڑ کے پہونچ جاؤں در پاک نبی تک
دیدے مجھے تو ایسے پر و بال مدینہ
تو چاہے تو مل جائے مجھے مرہم دیدار
دل ناوک ہجراں سے ہے غربال مدینہ
اب بھی جو فضاؤں میں تری گونج رہے ہیں
سُنوا دے وہ سرکار کے اقوال مدینہ
جب تک کہ تو جب نہ کریں رحمتِ عالم
ممکن نہیں سنبھلیں مرے احوال مدینہ
میں کاش پہونچتا جو تری پاک زمیں پر
کرتا جسد خاکی کو پامال مدینہ
تو آخری آرام گہِ سرور دیں ہے
کونین میں کب ہے تری امثال مدینہ
رکھتا ہے ادیب آج بھی امید رسائی
دل میں تراغم کیسے نہ لے پال مدینہ