ہے اگر تو میری فغان شب تو نہ بیٹھ پردۂ راز میں
کبھی آ دیار حجاز میں کبھی جا دیار حجاز میں
ہے ہر ایک سمت سکوت شب ہے زباں پہ حمد و ثنائے رب
ذرا دیکھئے تو یہ کون ہے جو کھڑا ہوا ہے نماز میں
یہی ایک خوف سدا رہا جو میں آہ لب پہ نہ لا سکا
کہ نہ دیکھ لے کوئی جھانک کے تجھے میرے دل کے گداز میں
ہے گواہ عرصۂ لامکاں ہمیں بھولے شافع عاصیاں
نہ تو آکے خلوت ناز سے نہ تو جا کے خلوت ناز میں
ہوا دور دل سے ہر ایک غم جو بکھر گئی ہے بصد کرم
تو سمٹ کے آگئے دو جہاں اسی ایک زلف دراز میں
کبھی ضرب عشق اگر پڑی تو بشکل صورتِ اذاں اٹھی
یہ صدائے سوز بلال ہے جو نہاں ہے پردۂ ساز میں
نہ ہو کیوں مدینۂ مصطفیٰ مرے جذب شوق کی انتہا
کہ وہی حقیقت اصل ہے جو ہے اس جہانِ حجاز میں
نہیں کم ہے یہ بھی مجھے صلہ جو در رسول سے ہے ملا
کہ مری غلامی کی ہر ادا ہے نگاہ بندہ نواز میں
ہے ادیب ” قسمت نارسا مگر اے درشہ انبیاء
تو نہ جانے کب سے بسا ہوا ہے مری جبینِ نیاز میں