ہے جلوہ گر جو آئینہ ہے شانِ کبریائی کا
دل ناداں یہی موقعہ ہے قسمت آزمائی کا
یقیناً قعر دوزخ میں گرا دینے کو کافی ہے
تصور بھی نبی محترم سے بے وفائی کا
یہ ہیں مجنون و ساحر ذہن بوجہلی پکار اٹھا
ملا جب کوئی بھی پہلو نہ آقا میں برائی کا
مدینہ مل گیا مقصود ہستی پالیا میں نے
مجھے اب زندگی کیا خوف تیری کج ادائی کا
نظر آنے سے پہلے نقش پائے سرور عالم
مرے مالک جبیں کو حوصلہ دے جبہ سائی کا
ضرورت پل صراط و حشر میزاں کی نہ تھی کچھ بھی
مگر مقصود تھا اظہار شان کبریائی کا
نظر ہٹتی نہیں ہے اے جمال گنبد خضری
کوئی سیکھے تو بس تجھ سے طریقہ دلربائی کا
عذاب روح کہتے ہیں کسے مجسھے کوئی پوچھے
مری آنکھوں میں ہے منظر مدینے سے جدائی کا
نہیں آسان درک آیۂ قوسین او ادنی
ادیب ” اندازہ ہو کیسے بھلا ان کی رسائی کا
ادیب ” اندازہ ہو کیسے بھلا ان کی رسائی کا