ہے ساحل مراد سفینے سے دور دور
رکھا حیات نے ہے مدینے سے دور دور
ممکن نہیں کہ پالے کوئی مقصد حیات
رہ کر مرے نبی کے قرینے سے دور دور
اس رحمت تمام کی جب سے پڑی نگاہ
غم میں ہمارے دل کے نگینے سے دور دور
تھا کتنا مشکبار سراپا حضور کا
مہکیں فضائیں جس کے پیسنے سے دور دور
ارض نبی میں تجھ پہ کروں نقدِ جاں فدا
مجھ کو نہ رکھ کرم کے خزینے سے دور دور
منکر ہو جو بھی عظمت خیر الانام کا
رہنا سدا تم ایسے کمینے سے دور دور
مصباح ” کو بھی قرب کی دولت نصیب ہو
کب تک رہے کرم کے خزینے سے دور دور