ہے صرف کہنے کو آپ فرات چلو میں
لئے ہے تشنہ دہن کائنات چلو میں
بس ایک جام محبت حسین کا ہے بہت
پیو نہ سات سمندر کو سات چلو میں
اگر ہے ظرف تو کرب و بلا کے وہ پیا سے
انڈیل دینگے شراب نجات چلو میں
دکھائی دے گا سکینہ کی پیاس کا منظر
کرے گی دیکھنا تصویر بات چلو میں
ملا جو چہرے پہ اصغر کا خون آقا نے
ابھر کے آگئے رنگ حیات چلو میں
یوں لگ رہا تھا وہ کرب وبلا کا سونا بن
ہو جیسے علم کی ہر واردات چلو میں
جو یاد کر کے سکینہ کی پیاس مرجائے
تو خضر دیں اسے آب حیات چلو میں
کبھی جو آئی تصور میں پیاس اصغر کی
لگا کہ جیسے ہوں نیل وفرات چلو میں
یہ ہیں رسول کے آنسو کہ خون اصغر کا
لئے ہے کیا یہ سمندر صفات چلو میں
حسین ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں بہر دعا
کہ دو جہان میں دسویں کی رات چلو میں
برائے تزکیۂ قلب با ادب ” مصباح
سمندروں نے لی ان کی زکات چلو میں