یہ بھی ہے معجزۂ احمد مختار نیا
ذکر سو بار کرو لگتا ہے ہر بار نیا
منتظر نور مجسم کے نظر آتے ہیں
پیرہن نور کا پہنے در و دیوار نیا
ظلم کے ہاتھ سے شمشیر جفا چھوٹ گئی
رنگ لائی ترے اخلاق کی تلوار نیا
دشمنوں پر بھی کرم کر کے ستم کے بدلے
آدمیت کو دیا آپ نے کردار نیا
قبر میں آئیں جو آقا تو بچھانا آنکھیں
تیرا انداز ہو دیوانۂ سر کار نیا
مستیاں بانٹتا ہے میکدۂ عشق رسول
خم نیا جام نیا مئے نئی میخارنیا
ان کے جو دامن احساس پہ گزرے نہ گراں
رنگ ایسا ہو کوئی دیدۂ خونبار نیا
کوئی راہی جو حضوری کی تڑپ رکھتا ہو
کیف دے وادئ بطحیٰ بھی کا ہر اک خارنیا
جوڑ تو لیجئے امی لقبی سے رشتہ
رخ بدل ڈالیں گے خود علم کے اسرار نیا
ہے یہاں عظمتِ سرکار کے سکے کا چلن
ڈھونڈ گستاخ رسالت کوئی بازار نیا
منکر عظمت سرکار سے ہشیار ادیب”
روپ بدلے ہیں یہ ایماں کے خریدار نیا