یہ تو مرضی پہ ہے انکی کہ وہ کب دیتے ہیں
کچھ اگر منھ سے نہ مانگو تو وہ سب دیتے ہیں
کاش کہدیں مرے سرکار کہ جا دیوانے
ہم جنوں کو ترے صحرائے عرب دیتے ہیں
پردہ داری جو ہے منظور تو اسرار خدا
محزن علم کو امی کا لقب دیتے ہیں
دیکھیے سرور کونین کا انداز عطاء
خود کرم کرتے ہیں خود ظرف طلب دیتے ہیں
ان کی بخشش میں کم و بیش کا شکوہ کیسا
جھولیاں تنگ ہی ملتی ہیں وہ جب دیتے ہیں
یوں بڑھا دیتے ہیں درجات مدینے والے
جس پہ کرتے ہیں کرم قربت رب دیتے ہیں
میں کہاں اور کہاں خونِ رسالت کا وقار
کتنا دھو کہ یہ مجھے نام و نسب دیتے ہیں
کیوں نہ مانگے یہاں دنیا کے بہ ایمائے رسول
جس کو دیتے ہیں شہنشاہ حلب دیتے ہیں
یہ عنایت ہے ادیب ان کی کہ وہ ہم جیسے
بے ادب لوگوں کو توفیق ادب دیتے ہیں