یہ جو بارگاہ رسول سے کوئی دور کوئی قریب ہے
یہ سب اپنی اپنی ہیں قسمتیں یہ سب اپنا اپنا نصیب ہے
میں مریض عشق رسول ہوں مجھے چارہ ساز سے کیا غرض
مجھے درد جس نے عطا کیا وہی درد دل کا طبیب ہے
جو عمر مدینے سے دے ندا سنے کس طرح سے نہ ساریہ
کہ یہ اس عظیم کی ہے صدا جو در نبی کا خطیب ہے
وہ اخوتوں کا سبق دیا کہ جہان سارا پکار اٹھا
نہ ہے شاہ کوئی نہ ہے گدا نہ امیر ہے نہ غریب ہے
وہ جو بے کسوں پہ ہے مہرباں ہے وہی تو باعث انس و جاں
ہے اسی کا صدقہ یہ دو جہاں وہ خدا کا پیارا حبیب ہے
ہے انہیں کے نور سے مفتخر بہ خدا جبین ابو البشر
ہو کوئی رسول کہ ہو نبی میرے مصطفیٰ کا نقیب ہے
کبھی جلوہ فرما ہیں فرش پر کبھی مہمان ہیں عرش پر
کبھی لا مکاں پہ ہیں جلوہ گر یہ ادا نبی کی عجیب ہے
چلو محضر ان کی پناہ میں تو جنوں کو چھوڑ دو راہ میں
رہے احترام نگاہ میں کہ وہ بارگاہ حبیب ہے