یہ زمیں تعزیہ دار ہے آسماں تعزیہ دار ہے
آسماں پر چمکتی ہوئی کہکشاں تعزیہ دار ہے
منکرو کیا دلیلیں میں دوں میرے سر میں ہے ان کا جنوں
بس یہ کافی ہے سرکار کا آستاں تعزیہ دار ہے
اسکی تحریر و تقریر سے عشق آل نبی ہے عیاں
جو قلم تعزیہ دار ہے جو زباں تعزیہ دار ہے
ظلم کا کوئی طوفان بھی اس کا سرخم نہ کر پائے گا
جو علم تعزیہ دار ہے جو نشاں تعزیہ دار ہے
دیکھو آلِ نبی کا کرم رزق میں برکتیں ہو گئیں
میرے گھر جب کوئی آگیا مہماں تعزیہ دار ہے
ہر کلی کیوں نہ لب کھول کر نعرۂ یاحسینی کہے
رب کا احساں ہے اس باغ کا باغباں تعزیہ دار ہے
نسبت اہلبیت نبی میری قسمت میں لکھی گئی
میرا دل تعزیہ دار ہے میری جاں تعزیہ دار ہے
ام سلمہ سے پوچھو ذرا وہ بتائیں گی یہ ماجرا
ایسا لگتا ہے خود رحمت دو جہاں تعزیہ دار ہے
کربلا کے شہیدوں کا تم سب کو قصہ سناتے رہو
کیونکہ مصباح ” اسلاف کی داستاں تعزیہ دار ہے