یہ وصف میرے لئے کب کسی دیار میں ہے
سکوں جو دل کو میسر ترے جوار میں ہے
جسے بھی چاہیں ولایت سے مالہ مال کریں
یہ بات قطب دو عالم کے اختیار میں ہے
لبوں پہ آتے ہی ہوتی ہیں مشکلیں آساں
نہ جانے کتنا اثر لفظ دم مدار میں ہے
ہم اپنے تاب تصور پہ ناز کرتے ہیں
کہیں بھی ہم ہیں مگر دل کوئے مدار میں ہے
جگر کے زخموں پہ مرہم کا کام کرتا ہے
اثر وہ ارضِ مکنپور کے غبار میں ہے
بسی ہے روضۂ اقدس میں نکہت طیبہ
نہاں نبی کی امانت اسی مزار میں ہے
شرف زمانے میں پایا ہے ان کی نسبت سے
نہیں تو ہستئی محضر بھی کس شمار میں ہے