چونکے نہ ارادے جب دل میں وحشت کو جماہی آئی تو کیا

Allama Niyaz Makanpuri

چونکے نہ ارادے جب دل میں وحشت کو جماہی آئی تو کیا
جب اوس کے آنسو گل روئے سبزے نے جو لی انگڑائی تو کیا

ہنس ہنس کے جفا جب کہتی تھی تب ایک نے تجھ کو داد نہ دی
اب میری کہانی رو رو کے محفل نے تیری دہرائی تو کیا

جب یاس کا غازہ موت آکے بیمار کے منہ پر ملنے لگی
تب آس نے آکر بالیں پر جو زلف سیاہ لہرائی تو کیا

باقی نہ رہی جب دل میں میرے وہ بادہ بجامی کی حسرت
غنچوں نے جو ساغر توڑ دیے پھولوں نے جو مئے چھلکائی تو کیا

اب آج میری بے حالی پر آتا جو ترس تو بات بھی تھی
کل اپنے کیے پر بعد میرے دنیائے ستم پچھتائی تو کیا

تم ڈر سے شکست دل کی میرے غیروں سے نہ ہنسنا بند کرو
ہنستے ہوئے غنچوں کے آگے اک آدھ کلی مرجھائی تو کیا

کس بے کس غم کی پیاس بجھی کس دل کے ہوئے شعلے ٹھنڈے
یک بوند لہو کی پلکوں سے ہونٹوں پہ ڈھلک کر آئی تو کیا

لہکاتی تھی جس کے عارض پہ کل باد بہاری شعلوں سے
اب آج خزاں میں اس گل کی ہوتی ہے اگر رسوائی تو کیا

جب دن کی نیاز بے ہمت دھوپوں سے جگائے جگ نہ سکا
اب خنکئی شب کی لوری سے لی اس نے اگر انگڑائی تو کیا

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *