چونکے نہ ارادے جب دل میں وحشت کو جماہی آئی تو کیا
جب اوس کے آنسو گل روئے سبزے نے جو لی انگڑائی تو کیا
ہنس ہنس کے جفا جب کہتی تھی تب ایک نے تجھ کو داد نہ دی
اب میری کہانی رو رو کے محفل نے تیری دہرائی تو کیا
جب یاس کا غازہ موت آکے بیمار کے منہ پر ملنے لگی
تب آس نے آکر بالیں پر جو زلف سیاہ لہرائی تو کیا
باقی نہ رہی جب دل میں میرے وہ بادہ بجامی کی حسرت
غنچوں نے جو ساغر توڑ دیے پھولوں نے جو مئے چھلکائی تو کیا
اب آج میری بے حالی پر آتا جو ترس تو بات بھی تھی
کل اپنے کیے پر بعد میرے دنیائے ستم پچھتائی تو کیا
تم ڈر سے شکست دل کی میرے غیروں سے نہ ہنسنا بند کرو
ہنستے ہوئے غنچوں کے آگے اک آدھ کلی مرجھائی تو کیا
کس بے کس غم کی پیاس بجھی کس دل کے ہوئے شعلے ٹھنڈے
یک بوند لہو کی پلکوں سے ہونٹوں پہ ڈھلک کر آئی تو کیا
لہکاتی تھی جس کے عارض پہ کل باد بہاری شعلوں سے
اب آج خزاں میں اس گل کی ہوتی ہے اگر رسوائی تو کیا
جب دن کی نیاز بے ہمت دھوپوں سے جگائے جگ نہ سکا
اب خنکئی شب کی لوری سے لی اس نے اگر انگڑائی تو کیا




