حیرانی سے کیوں چشم سحر دیکھ رہی ہے
دنیا دل بے کس کی اجڑ کے جو بسی ہے
ہستی میں غم ہستی سے آزاد وہی ہے
جس بندۂ مجبور کو عرفان خودی ہے
گمراہی سے نسبت جسے دیتا ہے زمانہ
نزدیک جنوں منزل ادراک وہی ہے
محرومی صہبا پہ ترس کھا میرے ساقی
تعزیر کے قابل تو میری تشنہ لبی ہے
ہے عشق ہی بھولا ہوا عرفان کے انداز
یا حسن کے جلووں میں بیگانہ وشی ہے
شاید یہ میرے غم نے اٹھائی ہے قیامت
جو آپ کی ہستی ہوئی آنکھوں میں نمی ہے
خم خانے اسی طرح تو مامور ہیں اب بھی
کیا کیجیے اس کو کہ مروت میں کمی ہے
فریاد کی تاثیر کا قائل تو ہوں لیکن
کب کس نے صدائے دل برباد سنی ہے
اعجاز ہے یہ ضبط محبت کے بھرم کا
ہے آگ لگی دل میں مگر لب پہ ہنسی ہے
اس کی بھی نگاہوں میں کھٹکتے ہیں یہ تنکے
جو برق کہ آغوشِ نشیمن میں پلی ہے
جس غم کو نیاز ہم نے بڑے دکھ سے لیا تھا
اب وجہِ نشاط دل برباد وہی ہے
Hairani se kyun chashm-e-sahar dekh rahi hai



