مسجد میں رکھی پرانی کتابیں بیچنے کا حکم

مسجد میں رکھی پرانی کتابیں بیچنے کا حکم

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
علماء کرام و مفتیان اور قاضیان شریف کیا فرماتے ہیں اس مسلہ میں کہ میں انوارصمدانی ابن الحاج جناب توفیق احمد قادری چشتی مرحوم ساکن امروہہ قدیم کتب ومخطوطات وغیرہ کا کام کرتاہوں۔ اگر کوئی شخص ایسی کتاب یا مخطوطہ وغیرہ کسی مسجد میں رکھ جاتا ہے۔جو اہمیت اور افادیت کا حامل ہو نیز اس کےضائع ہونے کا بھی خطرہ ہو ، ایسی صورت میں اس علم یا کتب یا مخطوطہ کو بچانے کے لیے کیا عمل اختیار کرنا چاہئیے۔ کیونکہ اب وہ مسجد کی ملکیت ہوچکی ہے ، کیا میں اس کو خرید سکتا ہوں۔
دوسری بات اگر اس شخص سے پوچھا گیا کہ آپ نے فلاں کتاب یا مخطوطہ فلاں مسجد میں رکھا تھا۔کیا وہ مسجد کو دیا تھا۔وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تو ایسے ہی وہ کتاب رکھ دی تھی جو چاہے لے جائے۔
ان تمام صورتوں میں ہمارا دین اسلام کیا کہتا ہے۔براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسلہ کا حل عنایت فرمائیں

فقط
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
انوارصمدانی معرفت نیشنل بک ڈپو
بازار گذری امروہہ یو۔پی۔انڈیا
موبائل:9557441990

 

الجواب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ و برکاتہ
مسجد میں دیا گیا سامان بنیت وقف ہو یا بنیت ایصال ثواب دونوں صورتوں میں اگر وہ مسجد میں قابل استعمال نہ ہو یا اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے،تو ایسی صورت میں مسجد کمیٹی کا اس کو باہمی مشاورت سے فروخت کرنا جائز ہے،اور اس سے حاصل کرنے ہونی والے قیمت مسجد میں صرف کی جاۓ گی۔

البحر الرائق میں ہے
“و فى الفتاوى الظهيرية سئل الحلواني عن أوقاف المسجد إذا تعطلت و تعذر إستغلالها،هل للمتولي أن يبيعها و يشتري بثمنها أخرى؟قال:نعم.و روي هشام عن محمد إذا صار الوقف بحيث لا ينتفغ به المساكين فللقاضي أن يبيعه و يشتري بثمنه غيره…و لو أن أهل المسجد باعوا حشيش المسجد أو جنازة أو نعشا صار خلقا و من فعل ذلك غائب اختلفوا فيه،قال بعضهم يجوز و الأولى أن يكون بإذن القاضي و قال بعضهم لا يجوز إلا بإذن القاضي و هو الصحيح،و به علم أن الفتوى على قول محمد فى آلات المسجد”
[البحر الرائق،ج:٥،ص:٣٢٢/٣٢٣،كتاب الوقف/فصل فى أحكام المسجد،دار الكتب العلمية بيروت]

رد المحتار میں ہے
“لو وقف المصحف على المسجد أى بلا تعيين أهله قيل يقرأ فيه أى يختص بأهله المترددين إليه،و قيل لا يختص به أى فيجوز نقله إلى غيره”
[رد المحتار،کتاب الوقف،المطلب فی نقل الکتب الی غیرہ،دار عالم الکتب ریاض]

فتاوی عالمگیری میں ہے
“حصير المسجد إذا صار خلقا و استغنى أهل المسجد عنه …أرجو أنه لا بأس بأن يدفع أهل المسجد إلى فقير أو ينتفعوا به فى شراء حصير آخر للمسجد و المختار أنه لا بجوز لهم أن يفعلوا ذلك بغير أمر القاضي كذا فى محيط السرخسي… حشيش المسجد إذا كان له قيمة فلأهل المسجد أن يبيعوه و إن رفعوا إلى الحاكم فهو أحب ثم يبيعوه بأمره هو المختاركذا فى جواهر الاخلاطي”
[الفتاوى الهندية،ج:٢،ص:٤٢٨،كتاب الوقف/باب فى المسجد و ما يتعلق به،دار الكتب العلمية بيروت]

لہٰذا صورت مسئولہ میں مسجد میں رکھا مخطوطات یا کتابوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے،تو کمیٹی ممبران باہمی مشاورت سے اس کو بیچ سکتے ہیں،اور اس کی قیمت مسجد میں ہی صرف ہوگی۔
والله تعالیٰ اعلم۔

کتبه
احقر اکبر خان مداری غفر لہ
نزیل حال سعودی عربیہ (حجاز شریف)
سابق مدرس مدرسہ مدار العلوم گوبندہ پور بریلی
24/رمضان المبارک 1443ھ

الجواب صحیح
خوشنود خان مداری عفی عنہ
صدر المدرسین مدرسہ مذکورہ و ناظم اعلیٰ دار الافتا مداریہ

 

ماخوذ : فتاوی مداریہ ، جلد اول ، صفحہ ٥٦٧


Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *