مظلوم کربلا مظلوم کربلا
ہر قوم کی زبان پہ ہے آج یہ صدا
ہنستے ہوئے دکھوں کا زمانہ گزار کے
اسلام اور عزیز و اقارب کو وار کے
دین نبی کو پھر سے نئی جان دے گیا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
اصغر کو لے کے مانگنے پانی چلے حسین
غیرت سے لب نہ کھول سکے شاہ مشرقین
سرکار کے رہ گئے رخ معصوم سے ردا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
رنگیں لہو سے جس کے ہیں گل لال زار کے
بتلا گیا جو معنی جہاں کو بہار کے
واقف نہ ہو تو ہم یہ بتائیں وہ کون تھا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
آواز حق کو روک نہ پائے ستم شعار
نوک سنا پہ کہہ کے جو تکبیر تین بار
شبیر چپ ہوئے تو زمانہ پکار اٹھا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
اکبر کو اپنے ہاتھوں کیا ہے سپرد خاک
اکبر کو اپنی دیکھا ہے آنکھوں سے سینہ چاک
وہ کون سا ستم ہے جو تجھ پر نہیں ہوا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
جلتی ہوئی ہوا سے صغرا نے یوں کہا
کہنا ادب سے جب ہو گزر سمت کربلا
کیوں آپ ہم کو بھول گئے کیا ہوئی خطا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا
پوچھیں گے قبر میں جو نکیرین اے ادیب
بتلا یہاں ہے کس کی حمایت تجھے نصیب
بے خوف و بے ہراس کہوں گا میں برملا
مظلوم کربلا مظلوم کربلا