آجایئے بابا مرے آجائیے بابا مرے
آجایئے مت اور اب تڑ پایئے بابا
فرقت کی کسک بڑھ گئی اب حد سے زیادہ
روکر کہا صغری نے کہ تھا آپ کا وعدہ
اک بار تو صورت مجھے دکھلایئے بابا
آجایئے بابا مرے آ جایئے بابا
راتوں میں کس کے سینے پر سوئیگی سکینہ
جاگے گی پھوٹ پھوٹ کر روئیگی سکینہ
کیسے جیئے گی آپ ہی بتلایئے بابا
آجایئے بابا مرے آ جایئے بابا
ہنس کر سہی ہیں میں نے ستمگر کی جفائیں
آتی ہیں یہ لاش علی اکبر سے صدائیں
رن سے اٹھا کر اب مجھے لیجایئے بابا
آجایئے بابا مرے آ جایئے بابا
بے چین ہے بے حال ہے یہ بالی سکینہ
پھٹتا ہے اسے دیکھ کے سجاد کا سینہ
اب آپ ہی آکر اسے بہلایئے بابا
آجایئے بابا مرے آجایئے بابا
غش کھا کھاکے یہ عابد بے پر کا سنبھلنا
کمزور ہے اس درجہ کہ دشوار ہے چلنا
بیمار کی یہ بیڑیاں کھلوایئے بابا
آجایئے بابا مرے آجایئے بابا
بگڑے ہوئے ہیں ظلم کے طوفان کے تیور
سب اہل حرم ہو گئے بے مقنع و چادر
اب چادر تطہیر لیکر آیئے بابا
آجایئے بابا مرے آجایئے بابا
دنیا نے کیا جذبۂ اخلاص ہے مجروح
احساس کے زخموں سے شکستہ ہے اسکی روح
“مصباح ” پر اپنے کرم فرمایئے بابا
آجایئے بابا مرے آجایئے بابا