بناتا بگڑے مقدر مدار کا در ہے
نوازشوں کا سمندر مدار کا در ہے
یہاں ہے تیز دھڑکنا بھی دیکھ بے ادبی
سنبھل سنبھل دل مضطر مدار کا در ہے
ہو اسکو رسم چراغاں کی احتیاج ہی کیا
تجلیات کا پیکر مدار کا ہے
جو لوٹتا ہے مدینے سے وہ یہ کہتا ہے
در رسول کا مظہر مدار کا در ہے
ہے جسکی چاندنی بکھری ہر ایک آنگن میں
اک ایسا ماہ منور مدار کا در ہے
مجھے ہو ناز بھلا کیوں نہ اپنی قسمت پر
میری جبیں کو میسر مدار کا در ہے
کسی سے کوئی غرض ہے نہ واسطہ مصباح
ہماری فکر کا محور مدار کا در ہے