فقیہ الامت مفتی اعظم ابوالحماد محمد اسرافیل صاحب قبلہ دامت برکاتہ کی خدمت میں ایک سوال عرض ہے میرے والد محترم نے ایک بکرا پالا تھا اس ارادے سے کہ اس کی اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں گے (جیسا کہ آپکو خبر ہے میرے والد محترم کا انتقال ہو گیا ہے خوش نصیبی یہ کہ نماز جنازہ آپ ہی نے پڑھائی تھی) میرے والد محترم کے تین صاحبزادے ہیں مجھلے صاحبزادے اس وقت گھر کا تمام خرچہ اٹھا رہے ہیں میرے سب سے بڑے بھائی کیونکہ ان کی معاشی حالت اتنی اچھی نہیں ہے اس لیے وہ خرچ کی ذمہ داری نہیں لے پائے اور میں یعنی اپنے والد کا تیسرا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اپنے مجھلے بھائی کے ہی ساتھ رہتا ہوں میرا نان و نفقہ بھی مجھلے بھائی دیکھ رہے ہیں اب آگے عید الاضحی آ رہی ہے جس میں ہمیں ایک جانور قربانی کے نام پر ذبح کرنا ہے
سوال یہ تھا کہ اس جانور کی قربانی کس کے نام پر کی جائے کیا اس جانور کی قربانی ہم اپنے والد صاحب کے نام پر کر سکتے ہیں مولانا صاحب نے بتایا کہ قربانی زندوں پر واجب ہوتی ہے مردوں پر واجب نہیں ہوتی تو لہذا پہلے اس کے نام پر قربانی کریں جو زندہ ہے اور جو دنیا سے چلا گیا ہے اس کے لیے الگ سے انتظام ہو اس مسئلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں آپ کی بے حد نوازش اور کرم ہوگا??
سائل : محمد قاسم شاہ ابن مرحوم ڈاکٹر لیاقت علی شاہ بیسلپور ضلع پیلی بھیت
الجَوَابُ بِالتَّفْصِيْلِ وَالدَّلِيْلِ، وَاللّٰهُ المُوَفِّقُ لِلصَّوَابِ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْـحَمْدُ لِلّٰهِ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُوْلِ اللّٰهِ، وَعَلٰى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَمَنْ وَالَاهُ، أَمَّا بَعْدُ:
القُرْبَانُ وَاجِبٌ عَلَى الْحَيِّ صَاحِبِ النِّصَابِ
قربانی ان مسلمانوں پر واجب ہے جو: عاقل ہوں، بالغ ہوں، مقیم ہوں، صاحبِ نصاب ہوں۔
اللہ تَعَالٰى کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾
(سورۃ الكَوْثَر: ٢)
ترجمہ: پس تُو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا۔
(سُنَنُ ابْنِ مَاجَه، بَابُ الْأَضَاحِي، حَدِيْث: ٣١٢٣)
ترجمہ: جو وسعت رکھتا ہو اور قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
مذہبِ حنفی میں یہی راجح ہے کہ قربانی زندہ صاحبِ نصاب پر واجب ہے، میّت پر نہیں۔
الأُضْحِيَةُ عَنِ الْمَيِّتِ جَائِزَةٌ عَلَى سَبِيلِ التَّطَوُّعِ
اگر میّت نے وصیت نہ کی ہو، تو بھی زندہ افراد اگر اپنی طرف سے میّت کے لیے نفل قربانی کریں تو جائز بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
قَالَ الإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالٰى:
وَالْأُضْحِيَةُ عَنِ الْمَيِّتِ جَائِزَةٌ، إِذَا تَطَوَّعَ بِهَا إِنْسَانٌ وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِلْمَيِّتِ۔
(الْأَصْلُ لِلإِمَامِ مُحَمَّدٍ، ج٥، ص٢٨٠)
وَفِي “الْفَتَاوَى الْهِنْدِيَّةِ”:
وَإِنْ لَمْ يُوصِ، فَتَطَوَّعَ إِنْسَانٌ بِأُضْحِيَةٍ لَهُ، جَازَ أَيْضًا۔
(الْفَتَاوَى الْعَالِمْگِيَّریة، ج٥، ص٣٠٠)
تَصَرُّفٌ فِي الْجَانِبِ الْمَالِيِّ: مِلْكٌ لِمَنْ؟
جو بکرا والد مرحوم نے پالا تھا، اگر اس پر وصیت نہ کی گئی ہو تو وہ اب ترکہ شمار ہو گا، اور اس میں تمام ورثاء (بیٹے) شریک ہیں۔
فَإِنِ اتَّفَقَ الْوَرَثَةُ جَمِيعًا عَلَى أَنْ تُجْعَلَ الْأُضْحِيَةُ لِلْمَيِّتِ نَفْلًا، جَازَ ذٰلِكَ.
لیکن اگر کسی ایک بھائی نے اس بکرے کو اپنی کفالت و اخراجات سے پالا ہو، تو اب وہی اس کا مالک ہے، اور قربانی کی نیت بھی اس کی ہو گی۔
الْحُكْمُ الْعَمَلِيُّ فِي هٰذِهِ الصُّورَةِ
صورتِ حال کے مطابق درج ذیل اُمور کی رعایت کی جائے:
. اگر بکرا اب مجھلے بھائی کی ملکیت میں ہے اور وہ صاحبِ نصاب بھی ہیں، تو اُن پر قربانی واجب ہے۔
ایسی صورت میں وہی اس جانور کی قربانی اپنی واجب قربانی کے طور پر کریں۔
اگر وہ چاہیں تو بعد میں الگ جانور لے کر والد مرحوم کے لیے نفل قربانی کر سکتے ہیں۔
اگر سب بھائی راضی ہوں کہ یہی جانور والد مرحوم کی طرف سے نفل قربانی کے طور پر کیا جائے تو یہ جائز اور باعثِ ثواب ہے، لیکن یہ واجب قربانی کے قائم مقام نہ ہو گی۔
نِيَّةُ الْقُرْبَانِ وَالْمُفَاضَلَةُ بَيْنَ الْوَاجِبِ وَالنَّفْلِ
واجب قربانی اور نفل قربانی میں نیت کا اعتبار بنیادی ہے۔ واجب قربانی کی نیت سے ذبح ہونے والا جانور نفل کے قائم مقام نہیں ہو سکتا، اور نفل قربانی واجب کو ساقط نہیں کرتی۔
الخُلاصَةُ وَالتَّوْصِيَةُ
قربانی زندہ صاحبِ نصاب پر واجب ہے، میت پر نہیں۔
اگر مرحوم والد کی طرف سے نفل قربانی کرنی ہو، تو ورثاء کی رضا مندی سے جانور نفلی طور پر اُن کی نیت سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔
اگر جانور کسی ایک کی ملکیت میں آ چکا ہو اور وہ صاحبِ نصاب ہو تو وہ اپنی طرف سے واجب قربانی کرے، یہی افضل و مقدم ہے۔
بعد ازاں استطاعت ہو تو والد مرحوم کے لیے نفل قربانی کر کے ایصالِ ثواب کیا جائے۔
وَاللّٰهُ تَعَالٰى أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
کَتَبَهُ
الفَقِيْرُ إِلٰى رَحْمَةِ رَبِّهِ الْغَفُوْرِ
أَبُو الْحَمَّادِ مُحَمَّدٌ إِسْرَافِيْلُ الحیدری والمداری مفتی الجامعۃ العربیۃ مدار العلوم مدینۃ الاولیاء مکنپور شریف
عَفَا اللهُ عَنْهُ، وَعَنْ وَالِدَيْهِ، وَمَشَايِخِهِ، وَمُحِبِّيهِ