کاش وہ نور کا بہتا ہوا دریا دیکھیں
میری آنکھیں بھی کبھی گنبد خضراء دیکھیں
اب جو مالک کبھی ہم کوئی بھی سپنا دیکھیں
بس یہ حسرت ہے کہ سرکار کا جلوہ دیکھیں
کل کے مختار ہیں باندھے ہیں شکم پر پتھر
میرے آقا کی ادا قیصر و کسری دیکھیں
آج سر گرم نظارہ نظر آتے ہیں ملک
آرز و سب کی ہے معراج کا دولہا دیکھیں
ہر گھڑی ساتھ ہے درد غم احمد میرے
یہ الگ بات ہے سب مجھ کو اکیلا دیکھیں
اے خدا ایسے بھی دن آئیں کہ ہم بھی جا کر
شام مکے کی مدینے کا سویرا دیکھیں
ان کو ” مصباح ” اندھیروں کا بھلا خوف ہو کیا
قبر میں اپنی جو سرکار کا جلوہ دیکھیں