ہر طرف چھائی تھی گمرہی کی گھٹا وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
لے کے ہاتھوں میں قرآں کا روشن دیا وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
مٹ گئی تھی زمانے سے انسانیت ہر طرف سر اٹھائے تھی حیوانیت
اور کفر و جہالت کی تھی انتہا وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
یک بہ یک شرک و بدعت کا دم گھٹ گیا منہ کے بل گر پڑے آج جھوٹے خدا
مل گیا سب کو سچے خدا کا پتہ وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
کھل گئے ہیں چمن جھوم اٹھی فضا مستی عشق میں آج باد صبا
گنگناتی ہے نغمات صل علیٰ وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
کفر و الحاد کی تیرگی چھٹ گئی گھر ہوں کو ہے راہ ہدایت ملی
جل گئی آج دنیا میں شمع حراوہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
آفتاب قیامت تھا شعلہ فگن تپ رہی تھی زمیں جل رہے تھے بدن
جانے کیا حشر ہوتا بروز جزاء وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
بجھ گیا تھا دیا نور عرفان کا سہما سہما شبستاں تھا ایمان کا
ایسے ماحول میں بنکے شمس الضحی وہ تو کہئے حبیب خدا آگئے
ہے حلیمہ کے آنگن میں پھیلی ضیا آج “مصباح”سورج ہے حیرت زدہ
رنگ لایا براہیم کا مدعاوہ تو کہئے حبیب خدا آگئے