madaarimedia

امام متعین کا انتظار کرنا

کیا مقتدیوں کو نماز کے لیے امامِ متعین کا انتظار کرنا چاہیے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید امامِ مسجد ہے زید نے بارہا اپنے مقتدیوں سے کہا کہ اگر کبھی اتفاقاً مجھ کو جماعت کے وقت مسجد پہنچنے میں تاخیر ہو جائے تو آپ حضرات چار یا پانچ منٹ میرا انتظار کیا کریں اتنے وقت میں اگر میں نہ آ پاؤں تو آپ کو اختیار ہے۔
لیکن ہوتا یہ ہے کہ مقتدی زید کا بالکل بھی انتظار نہیں کرتے گھڑی میں جیسے ہی وقت معین مکمل ہوتا ہے فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لئے کھڑا کر دیتے ہیں ۔
کیا مقتدیوں کو ایسا کرنا جائز ہے ؟ ایسا کرنے والوں کے لئے حکم شرعی کیا ہے ؟ مقتدیوں کو چار یا پانچ منٹ امامِ مسجد کا انتظار کرنا چاہیے یا نہیں ؟ امامِ مسجد کی اہمیت کیا ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عند اللہ ماجور ہوں ۔

المستفتی
حافظ محمد شاہد شکوہی مداری خطیب و امام محمدی مسجد محمد پور بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

امام کی اہمیت
ائمہ کرام انتہائی اہمیت و فضیلت و عظمت کے حامل ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ائمہ کرام کی شان میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایا ہے
وَ جَعَلْناهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنا وَ أَوْحَیْنا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْراتِ وَ إِقامَ الصَّلاةِ وَ إِیتاءَ الزَّکاةِ وَ کانُوا لَنا عابِدِینَ
(پارہ 17 سورۃ الانبیاء آیت 73) ترجمہ :۔ اور ہم نے ان کو امام بنایا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں اور ہم نے وحی فرمائی ان کی طرف نیکیاں کرنے کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ ادا کرنے کی اور وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے ۔

احادیث مبارکہ میں بھی ائمہ کرام کی فضیلت و اہمیت کا بیان موجود ہے پیارے آقا حضور احمد مجتبٰی محمد مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے امام کو ضامن قرار دیتے ہوئے ان کے لئے رشد و ہدایت کی دعا فرمائی ہے. عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم الامام ضامن والمؤذن مؤتمن اللھم ارشد الائمۃ واغفر للمؤذنین (جامع الترمذی جلد اول/ باب ماجاء ان الامام ضامن والمؤذن مؤتمن/صفحہ 29/مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

علاوہ ازیں پیارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم نے امامِ مسجد کی اتباع و اطاعت کرنے کا اعلان فرمایا ہے اور اطاعت نہ کرنے کی صورت میں غضب جبار و قہر قہار سے ڈرایا دھمکایا بھی ہے “صحیح بخاری“ وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أما یخشی أحدکم أو ألا یخشی أحدکم اذا رفع رأسہ قبل الامام أن یجعل اللّٰہ رأسہ رأس حمار أو یجعل اللّٰہ صورتہ صورةَ حمار (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب اثم من رفع رأسہ قبل الامام، صفحہ/96، جلد/1 ، مطبوعہ /رضا اکیڈمی بمبئی ) ترجمہ :- کیا تم میں سے کوئی امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتے وقت اس بات سے نہیں ڈرتا ، کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر کے مانند یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت کے مانند بنادے

قرآن و احادیث سے ثابت ہوگیا کہ امام کا مرتبہ و مقام کس قدر بلند و بالا ہے گویا کہ امام مقتدیوں کی نماز کا وکیل ہے مگر افسوس آج ہمارا معاشرہ امام کے مقام ومرتبہ اور فضیلت سے غافل ہوتا چلاجا رہا ہے ۔

اب رہا سوال کہ مقتدیوں کو چار یا پانچ منٹ امامِ مسجد کا انتظار کرنا چاہیے یا نہیں ؟
یہ بات تو حدیث شریف سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کا مؤذن انتظار کرتا تھا اور تکبیر نہیں کہتا تھا حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھ لیتا تب ہی تکبیر کہتا تھا ۔

جابر بن سمرہ یقول کان مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمھل فلا یقیم حتیٰ اذا رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قد خرج اقم الصلوٰۃ حین یراہ۔(جامع الترمذی، باب ماجاء ان الامام احق بالاقامۃ،/صفحہ 28/مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

احادیث سے واضح طور پر ثابت ہے کہ امام کا انتظار کرلینا چاہئے ۔ صحابہ کرام بھی پیارے آقا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا نماز میں انتظار کرتے تھے ۔
بخاری شریف کی حدیث میں ہے ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم حالت علالت میں تھے تو صحابہ کرام نے بہت دیر تک نماز کے لیے آپ کا انتظار کیا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پیارے آقا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ، ہم نے کہا کہ نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے لیے ایک تغار میں پانی بھر کر رکھ دو ہم نے پانی بھر کر رکھ دیا تو آپ نے غسل کیا پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے پھر ہوش میں آئے تو فرمایا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہم نے عرض کیا کہ نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں فرمایا کہ میرے لیے ایک تغار میں پانی بھر کر رکھ دو ہم نے پانی بھر کر رکھ دیا تو آپ نے غسل کیا پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے پھر ہوش میں آئے تو فرمایا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہم نے عرض کیا کہ نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں فرمایا کہ میرے لیے ایک تغار میں پانی بھر کر رکھ دو ہم نے پانی بھر کر رکھ دیا تو آپ نے غسل کیا پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے پھر ہوش میں آئے تو فرمایا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہم نے عرض کیا کہ نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں فرمایا کہ میرے لیے ایک تغار میں پانی بھر کر رکھ دو ہم نے پانی بھر کر رکھ دیا تو آپ نے غسل کیا پھر آپ کھڑے ہونے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے پھر ہوش میں آئے تو فرمایا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہم نے عرض کیا کہ نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ (مکمل حدیث بخاری شریف میں دیکھیں عربی عبارت بخوفِ طوالت نہیں لکھی – صحیح البخاری کتاب الاذان /باب انما جعل الامام لیؤتم بہ / صفحہ 95/ جلد/1 ، مطبوعہ /رضا اکیڈمی بمبئی )

ان تمام احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدی امام کی مکمل پیروی کریں ، امامِ مسجد کے نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہونے کا انتظار کریں ۔ اور بوقت ضرورت امام کا انتظار کرنا بھی ثابت ہے – مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ امامِ مسجد کا چار یا پانچ منٹ امام کے کہے بغیر ہی انتظار کریں ۔

بصورت مسئولہ امامِ مسجد کا اپنے مقتدیوں کو آگاہ کر دینے کے بعد اتفاقیہ معمولی سی تاخیر ہونے پر امام کا انتظار کرنا مقتدیوں پر لازمی ہو گیا ۔ گویا یہ ایسا ہی ہے جیسا وقت معین کے مکمل ہونے کا انتظار ۔
مقتدیوں کا چار یا پانچ منٹ امامِ مسجد کا انتظار نہ کرنا اور وقت معین مکمل ہونے پر فوراً دوسرے کو امامت کے لئے کھڑا کر دینا گویا امام مسجد کے بغیرِ اجازت ایسا کرنا ہوا جو کہ جائز نہیں ہے سراسر زیادتی ہے امام مسجد کی حق تلفی ہے ۔

واضح رہے کہ گھڑی کے مطابق نمازوں کے اوقات کا تعین لوگوں کی سہولت کے لیے ہے ، یہ شرعی معیار نہیں ہے ، پیارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم کے زمانے میں نمازوں کے مستحب اوقات میں جب لوگ جمع ہوجاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے تشریف لایا کرتے تھے ، لہٰذا اگر امام سے کبھی معمولی تاخیر ہوجائے تو وقت ہوتے ہی فوراً کھڑا ہونا اور امام کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔

حلم و بردباری اور تواضع انکساری سے کام لیا جائے ، یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی پسندیدہ ترین صفات ہیں ایسے مواقع پر ان صفات کا مظاہرہ لازمی کرنا چاہیے ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔

کتبہ
محمد عمران کاظم مصباحی المداری
الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ
محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔
تاریخ 21/ ذی قعدہ 1440 ھجری بروز جمعرات مطابق 25/ جولائی 2019 عیسوی ۔

الجواب صحیح والمجیب نجیح
فقط سید نثار حسین جعفری المداری نادر مصباحی مکن پور شریف کان پور نگر یو پی الہند
خادم الافتاء : الجامعۃ العربیہ سید العلوم بدیعیہ مداریہ محلہ اسلام نگر بہیڑی ضلع بریلی اترپردیش الہند ۔

Leave a Comment

Related Post

Top Categories