madaarimedia

ہجر طیبہ میں لٹانے کو ہے گو ہر بادل

 ہجر طیبہ میں لٹانے کو ہے گو ہر بادل

اپنی پلکوں میں چھپائے ہے سمندر بادل


سوئے طیبہ ہے رواں دوش ہوا پر بادل

دیکھ لگتا ہے مقدر کا سکندر بادل


نارسی کا مری قسمت کی اڑاتا ہے مذاق

جو گرجتا ہے مجھے دیکھ کر اکثر بادل


جن سے ساون کی گھٹائیں بھی ہیں نادم نادم

ہیں وہ سرکار کے گیسوئے معنرر بادل


ہر طرف ظلم کی گھنگور گھٹا چھائی ہے

ڈھونڈتا پھرتا ہے فاروق کو گھر گھر بادل


وہ ہی شورش و ہی پیچل و ہی جلوے رنگت

ہو بہو حسن بلالی کا ہے پیکر بادل


منجمد ہو گئے ہیں اشک غم ہجر نبی

کوئی دیکھے تو کبھی ہاتھ سے چھو کر بادل


تو چلا ہے جو مدینے غم تنہائی نہ کر

ساتھ لے لے مرے ارمانوں کا لشکر بادل


کبھی مکے میں برستا کبھی طیبہ جا کر

کاش مل جاتا مجھے تیرا مقدر بادل


تشنگی ہے غم طیبہ کی کہ بجھتی ہی نہیں

پی گیا ویسے تو ہے سات سمندر بادل


یوں برسنا کے قدم چوم لے سیلاب فرات

پیاسا ہے لخت دل ساقی کوثر بادل


ان کی مرضی ہو جو مصباح ” تو کچھ دور نہیں

ارض طیبہ میں پہونچ جاؤں میں بن کر بادل
ـــــــــ

——


Leave a Comment

Related Post

Top Categories