مدعا عشق نبی کا بااثر ہونے لگا
دل میں پیدا جذبہ شوق سفر ہونے لگا
سوزش ہجر نبی میں آنکھیں شعلہ بن گئیں
غنچۂ دل ہجر طیبہ میں شہر ہونے لگا
دل کے تاروں میں ہوئی جھنکار آنکھیں بہہ پڑیں
جب تصور کا مدینے میں گزر ہونے لگا
ہو گیا غافل جو میں خیر الوریٰ کی ذات سے
میری جانب سے زمانہ بے خبر ہونے لگا
دیکھ کر دزدیدہ نظروں ہی سے خضرا کا جمال
نور سے لبریز دامان نظر ہونے لگا
جنبش انگشت سے ڈوبا ہوا سورج اگا
اک اشارہ پا کے دو ٹکڑے قمر ہونے لگا
جب سے آقا کے کرم پر کر لیا ہے اعتبار
زندگی کا لمحہ لمحہ معتبر ہونے لگا
دیکھ کر معراج آقا گردشیں تھم نے لگیں
اتنا لمبا فاصلہ ایک پل میں سر ہونے لگا
جانب طیبہ چلا جس وقت کوئی قافلہ
ٹکڑے ٹکڑے ہم غریبوں کا جگر ہونے لگا
خنکیئ چشم رسالت کا اثر دیکھے کوئی
دامن دل میرا اے ” مصباح ” تر ہونے لگا