اس کو چھو نہیں سکتے دنیا کے اندھیرے ہیں
سرکار کی یادوں کے جس کے دل میں بسیرے ہیں
کونین پہ چھائے ہیں رحمت کی گھٹا بن کر
گیسو رسالت بھی کس درجہ گھنیرے ہیں
غم کھا رہے مدینہ اب للہ کرم کیجئے
دنیا کے علم مجھ کو ہر سمت سے گھیرے ہیں
جی اپنا چراتے ہیں جو عشق رسالت سے
عابد وہ نہیں یارو ایماں کے لٹیرے ہیں
آواز بلالی کی ہے گونج نہاں ان میں
واللہ بہت دل کش طیبہ کے سویرے ہیں
لب سل گئے ان کے بھی جو اہل فصاحت تھے
سرکار نے لفظوں کے موتی جو بکھیرے ہیں
مصباح دعا مانگو ہو عدل عمر قائم
ہر سمت زمانے میں پھر ظلم کے ڈیرے ہیں