السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ مفتی صاحب میں محمد طارق ابن عبدالقدیر شیخ میں نے اپنی بیوی عشرت جہاں کو گھر میں جھگڑا ہونے کی وجہ سے غصہ میں ہوش وہواس کے ساتھ دوپہر میں دوبار اور شام میں چار بار طلاق کہہ دیا۔25؍ستمبر2016ء کو یہ حادثہ ہوا تھا تومفتی صاحب طلب امر یہ ہے کہ طلاق ہوا ہے یا نہیں ؟آپ مجھے لکھ کر دیجیے۔
المستفتی:محمد طارق مقام وپتہ:1886؍شاہ منزل مومن پورہ خان کمپاؤنڈ غیبی نگر بھیونڈی،mob:8983612447
الجواب:اللھم ہدایۃ الحق و الصواب
بر صدق سوال صورت مسؤلہ میں عشرت جہاں پرتین طلاقیں مغلظہ واقع ہوچکی ہیں،اورعشرت جہاں محمدطارق کی زوجیت سے خارج ہوچکی،دونوںکو ایک ساتھ رہنا حرام ہے ۔اب بغیر حلالہ اس کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’ فَإِن طَلَّقَہَافَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُحَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہٗ (پارہ:۲،رکوع:۱۳،آیت:۲۳۰)
باقی تین کے علاوہ جتنی دفعہ طلاق کہا گنہگار ہوا، کتاب وسنت کے ساتھ مذاق کیا۔
حدیث پاک میں ہے :
اخبر رسول اللہ ﷺعن رجل طلق امرأتہ ثلث تطلیقات جمیعافقام غضبان ثم قال أ یلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظھرکم الحدیث ‘‘رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دیں،حضور ﷺ غصہ میں گھڑے ہوگئے اور یہ فرمایا :کیا میری موجود گی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کرتا ہے۔(أحادیث الرسول ،کتاب الطلاق ،باب ماجاء فی طلاق البتۃ وجمع؍نیل الأوطار،کتاب الطلاق،)
مؤطاامام مالک میں ہے :
اَنَّ رَجُلاً قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ مِائَۃَ تَطْلِیْقَۃٍ فَمَاذَا تَرٰی عَلَیَّ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ طَلُقَتْ مِنْکَ بِثَلٰثٍ وَسَبْعٌ وَتِسْعُوْنَ اتَّخَذَتْ بِھَا اٰیَاتِ اللّٰہِ ھُزْوًا‘‘۔ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی عورت کو سو ۱۰۰؍طلاقیں دے دیں آپ کے نزدیک مجھ پرکیا حکم ہے۔ابن عباس نے فرمایا وہ عورت تین طلاقوں سے مطلقہ ہوگئی اور ستانوے ؍۹۷سے تونے کتاب اللہ کے ساتھ ٹھٹھا کیا۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے :
جب طلاقیں تین تک پہنچ جائیں پھروہ عورت اوسکے لئے بے حلالہ کسی طرح حلال نہیں ہوسکتی ۔جس نے دس طلاقیں دیں تین سے طلاق مغلظ ہوگئی اور باقی سات شریعت سے اوس کا استہزا تھیں بلا نکاح تومطلقہ بائن بھی حلال نہیں ہوسکتی ہے اوریہ تونکاح سے حرام محض رہیگی جب تک حلالہ نہو۔ج:۵،ص:۶۳۴)
اگر بلا حلالہ رہے گی توہر لمحہ زِناء خالص میں گذرے گا۔ عدت کے بعدعشرت جہاں آزاد ہے جس سے چاہے شادی کرے۔البتہ شوہر سابق یعنی محمدطارق سے نکاح کے لیے حلالہ ضروری ہے۔ حلالہ کا طریقہ :یہ ہے کہ عورت پہلی طلاق ِثلثہ کی عدت گذار کرکسی دوسرے شخص سے نکاحِ صحیح کرے پھر وہ شخص اس کے ساتھ کم از کم ایک بار ہمبستری (وطی)کر ے پھر وہ طلاق دیدے یا مرجائے تو دوبارہ عدت گذارنے کے بعدمہر جدیدکے ساتھ شوہر سابق سے نکاح ِصحیح کرے۔
فتاویٰ عالمگیری مع خانیہ جلد :۱،ص:۴۷۳میں ہے:
ان کان الطلاق ثلاثالم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحاصحیحاویدخل بھاثم یطلقھااویموت عنھا کذا فی الھدایۃ۔ملخصاً۔اگر دوسرے شوہر نے ہمبستری کے بغیرطلا ق دیدی یا مرگیا تو حلالہ صحیح نہ ہوگا۔کما فی حدیث العسیلہ۔
مطلقہ کی عدت کی تفصیل :
یہ ہے کہ حاملہ کی عدت وضع ِحمل اور اگرمطلقہ نابالغہ ہے یا کسی سبب سے حیض نہیںآتا ہے تو تین ماہ اور حیض آتا ہے تو تین حیض۔جیساکہ قرآن کریم میںارشاد باری تعالیٰ ہے :ــ’’وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ‘‘(پارہ :۲،سورۃالبقرۃ،الآیۃ:۲۲۸)یعنی طلاق والیاں اپنے کو تین حیض تک روکے رہیں اور انھیں یہ حلال نہیں کہ جو کچھ خدانے ان کے پیٹوں میں پیدا کیا اسے چھپائیں اگر وہ اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں ۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے :
حاملہ کی عدت وضع حمل ہے مطلقہ ہو یا بیوہ،اورمطلقہ اگرحیض والی ہے توبعدِطلاق تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں اوراگرصغیرہ کہ ابھی حیض نہیں آتایاکبیرہ کہ حیض آنے کی عمرگزرگئی توعدت تین مہینے ‘‘(فتاوٰی رضویہ،ج:۵،ص:۸۳۵)۔
واللہ اعلم۔
کتبہ
سید مشرف عقیل امجدی
۲۳؍صفرالمظفر ۱۴۳۸ھ/۲۴؍نومبر ۲۰۱۶بروز جمعرات