madaarimedia

جان بچانے کی خاطر تین طلاق دیا ہے ہوجائےگی؟

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے ہندہ سے بذریعۂ وکیل کورٹ میرج کیا بعد میں کسی امام صاحب کے یہاں جا کر شرعی طور پر نکاح خوانی کیا جب ہندہ سے گھر والوں کو اس بات کی خبر ہوئی تو ان لوگوں نے زید اور ہندہ کو اپنے گھر میں بلا کر خوب ڈرایا دھمکایا،خود زید اور ہندہ کی پٹائی کی اور غنڈوں کے ذریعہ بھی گالی گلوج کیا اور مارپیٹ کیا، اس کے بعد ہندہ کے گھر والوں نے زید سے یہ کہا کہ تم ہندہ کو چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو ہم لوگ تم کو جا ن سے مارڈالیں گے چا ہے کچھ ہو،لہذا اگر تم ہندہ کو طلاق نہیں دوگے تو تمہاری جان چلی جائیگی اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہندہ کو تین مرتبہ طلاق کا لفظ بول کر اس کو آزاد کردو۔ جب میں نے ہندہ کے گھر والوں کا ارادہ بھانپ لیا اور میرے لئے کوئی راستہ اور چارہ نہیں بنا تو میں مجبوراً تین مرتبہ طلاق کا جملہ ہندہ کے لیے استعمال کیا اس در میان میں نے بار بار کہا کہ میں کسی حالت میں تین مرتبہ ہو یا ایک مرتبہ ہو طلاق دوںگا ہی نہیں مگر کیا کرتا مجبوراً یہ قدم اٹھا نا پڑا ۔لہذا دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا زبردستی کروانے کی صورت میں ،جان سے مار ڈالنے کا یقین ہو نیکی صورت میں اگر آدمی جان بچانے کے لیے مجبوراً طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی ،میں حلفیہ طور پر یہ بیان دینے کے لیے تیار ہوں کہ میں جان بچانے کی وجہ سے تین طلاق دیا ہے ۔برائے مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی:محمدعارف ،نزد شان اولیا ء مسجد،حافظ نگر، بھیونڈی ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب : اللھم ہدایۃ الحق و الصواب
طلاق زبان سے بخوشی دی جائے یا جبرواکراہ کے ساتھ بہر صورت مذہب ِحنفی کے مطابق طلاق واقع ہوجاتی ہے

۔حدیث پاک میں ہے:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺثَلَاثٌ جِدُّھُنَّ جِدٌّوَھَزْلُھُنَّ جِدٌّ:اَلنِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَۃُ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین چیزیں ایسی ہیں جن میں حقیقت بھی حقیقت ہے اور مذاق بھی حقیقت ہے’’نکاح،طلاق، اور رجعت‘‘۔(سنن ابوداؤد،کتاب الطلاق،باب فی الطلاق علی الھزل،ج:۲،ص:۲۳۲،الحدیث:۲۱۹۴/الترمذی،کتاب الطلاق،باب ماجاء فی الجَدِّ وَالْھَزْلِ فی الطلاقِ،الحدیث:۱۱۸۶،ص:۶۰۷)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:’’طلاق بخوشی دی جائے خواہ بجبر واقع ہو جائیگی نکاح شیشہ ہے اور طلاق سنگ، شیشہ پر پتھر خوشی سے پھینکے یا جبر سے یا خود ہاتھ سے چھٹ پڑے شیشہ ہر طرح ٹوٹ جائے گا مگر یہ زبان سے الفاظ طلاق کہنے میں ہے اگر کسی کے جبر واکراہ سے عورت کو خطر میں طلاق لکھی یا طلاق نامہ لکھ دیا اور زبان سے الفاظ طلاق نہ کہے تو طلاق نہ پڑ یگی ۔تنویرالابصار میں ہے :ویقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولومکرھااومخطئا‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ،ج؍۵،ص:۶۳۱)اورص:۶۳۲میں ہے:طلاق اگر زبان سے دے کیسے ہی جبرو اکراہ سے دی ہوجائیگی ۔فتاویٰ امجدیہ میں ہے:حنفیہ کے نزدیک حالت اکراہ یعنی زبردستی میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، جلد :۲،ص:۱۷۹)

بہار شریعت میں ہے:بلکہ اکراہ شرعی کی صورت میں بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔(حصہ :۸،ج:۲،ص:۱۱۲) 

بعدِ دلائل برصدق سوال زید کایہ کہناکہ ’’میں مجبوراً تین مرتبہ طلاق کا جملہ ہندہ کے لیے استعمال کیا ‘‘۔لہذا زید کے اس اقرارسے ہندہ پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوچکی، اب بغیر حلالہ ہندہ کا نکاح طالق سے نہیں ہوسکتا ہے اگر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہے توپہلے حلالہ ضروری ہوگا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے’’ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ(پارہ:۲،رکوع:۱۳،آیت:۲۳۰) 

اگر بلا حلالہ رہے گی توہر لمحہ زِناء خالص میں گذرے گا۔ عدت کے بعدہندہ آزاد ہے جس سے چاہے شادی کرے۔البتہ شوہر سابق سے نکاح کے لیے حلالہ ضروری ہے ۔واللہ اعلم  بالصواب۔

کتبہ
سید مشرف عقیل
ہاشمی دارلافتاموہنی مہواگاچھی ،تھانہ نانپور،ضلع سیتامڑھی(بہار) ۰۷؍ربیع النورشریف۱۴۳۸؁ھ/۰۷؍دسمبر  ۲۰۱۶؁ء بروزِبدھ

Leave a Comment

Related Post

Top Categories