اک زائر طیبہ یہ کہتا ہوا آیا ہے
مہجور مدینہ چل آقا نے بلایا ہے
سر اپنا جھکائے ہے رفعت پہ فلک ان کی
آقا نے جنھیں اپنے کاندھوں پہ بٹھایا ہے
رحمت کا سمندر بھی کہنا اسے کم ہوگا
وہ جس نے یتیموں کو سینے سے لگایا ہے
دربار میں آقا کے اے کاش کوئی کہدے
دل میں تری یادوں نے اک حشر اٹھایا ہے
قدموں پہ نچھاور ہے ہر ایک خوشی اس کے
سرکار کا غم جس نے سینے میں بسایا ہے
سرکار کی آمد نے صحرائے مدینہ کے
نورانی دوشالہ ہر ذرے کو اڑھایا ہے
سرکار رسالت کے تلوؤں سے ملیں آنکھیں
جبریل نے آقا کو کس طرح جگایا ہے
نادم نظر آئی ہے محشر کی تمازت بھی
سرکار نے جب مجھ کو دامن میں چھپایا ہے
روشن ہو نہ کیوں میری ہستی کا ہر اک لمحہ
پلکوں کو ترے غم نے اشکوں سے سجایا ہے
سرکار کرم کیجئے مصباح ” کی حالت پر
غم خوردہ و بے کس ہے دنیا کا ستایا ہے