غموں نے گھیر رکھا ہے سہارا دیجئے آقا
مقدر روٹھا روٹھا ہے سہارا دیجئے آقا
نہ کوئی نا خدا ہے اور نہ ہے پتوار ہاتھوں میں
بھنور میں میرا بیڑا ہے سہارا دیجئے آقا
سوا اک آپ کے بتلایئے اے رحمتوں والے
جہاں میں کون میرا ہے سہارا دیجئے آقا
ہر اک جانب ستم کی آندھیوں کے تند جھونکے ہیں
مرا دل سہما سہما ہے سہارا دیجئے آقا
یہ کیسے موڑ پر اب آگئی ہے زندگی میری
جو اپنا تھا پرایا ہے سہارا دیجئے آقا
گلابوں سے جسے تشبیہ دیتا تھا جہاں کل تک
وہ چہرہ اترا اترا ہے سہارا دیجئے آقا
گیا ہے جب سے کوئی چھوڑ کر ” مصباح ” کو تنہا
دگرگوں اس کی دنیا ہے سہارا دیجئے آقا