انہیں کی یادوں کی نوری محفل سجی ہوئی ہے سجی رہے گی
ہمارے دل میں نبی کی الفت بسی ہوئی ہے بسی رہے گی
چراغ خضرا سے لو ہماری لگی ہوئی ہے لگی رہے گی
ہمارے سینے میں شمع ایماں جلی ہوئی ہے جلی رہے گی
اے نازش خاندان ہاشم خدا ہے معطی تو تم ہو قاسم
تمہارے در کے گدا کی جھولی بھری ہوئی ہے بھری رہے گی
کوئی وفا کی ہنسی اڑائے کہ ان پہ طائف میں ظلم ڈھائے
مگر نبی کے کرم کی چادر تنی ہوئی ہے تنی رہے گی
یہ کہکشاں کے حسیں نظارے وہ اونچا سورج وہ چاند تارے
نبی کی چوکھٹ پر سب کی گردن جھکی ہوئی ہے جھکی رہے گی
نہ کوئی طاقت نہ مال اور زرنہ کوئی حامی نہ کوئی یاور
کرم ہے ان کا کہ بات پھر بھی بنی ہوئی ہے بنی رہے گی
کرم ہے ” مصباح ” رب کا ہم پر کہ ہم غریبوں کے فرش دل پر
نبی کی ٹوٹی ہوئی چٹائی بچھی ہوئی ہے بچھی رہے گی