یہ روح مداری ہے یہ جان مداری ہے
ہے شکر خدا ہم پر فیضان مداری ہے
خوشبو تیری نسبت کی سانسوں میں سمائی ہے
اس زیست کا ہر لمحہ ہر آن مداری ہے
ہم نے تو جہاں دیکھا قدموں کے نشاں پائے
یہ ہند مداری ہے ایران مداری ہے
گر وقت کبھی آیا ہم کر کے دکھا دیں گے
سرکار کے قدموں پر قربان مداری ہے
دشمن کی جو چالیں ہیں ہم خوب سمجھتے ہیں
نادان سمجھتے ہیں نادان مداری ہیں
ہے کون شجر کیا ہے کیا اس کی حقیقت ہے
کرتے ہیں جہاں والے اعلان مداری ہے