عبث ستاروں کی جستجو میں یہ عمر ساری بسر ہوئی ہے
ملا جو نقش قدم نبی کا تو زندگی معتبر ہوئی ہے
کرشمۂ اختیار دیکھو یہ ہم غریبوں سے پیار دیکھو
ادھر جو تڑپا ہے دل ہمارا ادھر نبی کو خبر ہوئی ہے
جو دیکھا نور جمال سرور فلک نے تارے کیئے نچھاور
گئے ہیں جب سوئے عرش آقا تو کہکشاں رہ گزر ہوئی ہے
لحد ہو یا پل صراط و میزاں ہماری خاطر شفیع عصیاں
تمہاری رحمت ہر ایک منزل پہ بڑھ کے سینہ سپر ہوئی ہے
لگایا جب نعرۂ رسالت تو کھل گیا ہے در اجابت
دیا ہے جب واسطہ نبی کا تو ہر دعا با اثر ہوئی ہے
تمہاری زلفوں کی وہ سیاہی کہ شام کا ہے وجود جس سے
تمہارے رخسار کی سفیدی بنائے حسن سحر ہوئی ہے
چلے کرم کی ہوا کے جھوکنے ہیں کھل گئے ذہن کے دریچے
جو دل کو یاد آیا شہرِ طیبہ تو فکر محو سفر ہوئی ہے
ہر اک نظر میں ہے اسکی عزت ہر ایک دل میں ہے اسکی چاہت
تمہاری اک چشم لطف جب سے حضور ” مصباح ” پر ہوئی ہے