جب محرم کا مہینہ آگیا
خارجیوں کو پسینہ گیا
آپ سے مظلوموں کو میرے حسین
صبر کرنے کا قرینہ آگیا
تعزئیے اٹھنے لگے ہر شہر میں
فتوے بازوں کو پسینہ آگیا
کام آیا اپنے ہے نام حسین
جب بھنور میں ہے سفینہ گیا
جب بڑھے شہ کی طرف اعدائے دیں
سامنے اکبر کا سینہ آگیا
حر نے کر لی تب شہادت ہے قبول
عشق کا جب جام پینا آگیا
باب دوزخ پر یزیدی جب گیا
بولا داروغہ کمینہ آگیا
سیدہ زہرا کی چکی دیکھ کر
مفلسی میں بھی ہے جینا آگیا
وہ شجر ہرگز نہ پائے گا سکوں
جس کے دل میں ان کا کینہ آگیا