کر پائیں گے کیا ہم پیاسوں کو دنیا کے ستمگر مٹھی میں
ہم ساقی کوثر والے ہیں رکھتے ہیں سمندر مٹھی میں
جو انکی محبت میں اپنی آنکھوں سے بہاتے ہیں آنسو
وہ لوگ چھپائے بیٹھے ہیں مہرومہ واختر مٹھی میں
کیا شان ہے انکی صلی علی اے غیب کے منکر دیکھ ذرا
کنکریوں نے ان کا کلمہ پڑھا اس جہل کی خوگر مٹھی میں
بس عشق نبی کام آئے گا سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
بتلاؤ ذرا کیا لیکے گیا دنیا سے سکند مٹھی میں
اے تیرہ نصیبو! مالک نے مختار بنایا ہے اس کو
دیدے جسے چاہے شمس و قمر وہ نور کا پیکر مٹھی میں
تقدیر میں جن کی لکھدی ہے خالق نے غلامی آقا کی
وه خوش قسمت کر لیتے ہیں دنیا کا مقدر مٹھی میں
مصباح ” نبی کی الفت میں جو چاک گریباں رہتا ہے
کو نین کی دولت رکھتا ہے وہ مست قلند ر مٹھی میں