هم درد کے ماروں کے غمخوار چلے آؤ
سرکار چلے آؤ سرکار چلے آؤ
نفرت کے اندھیرے ہیں اب جنگ پہ آمادہ
چمکانے محبت کی تلوار چلے آؤ
تم دست نبوت میں قرآں کا دیا لیکر
بے نور ہے دنیا کا کردار چلے آؤ
ٹوٹی ہوئی کشتی کو طوفان ڈراتا ہے
ہاتھوں میں نہیں کوئی پتوار چلے آؤ
تم سب کے مسیحا ہو لللہ شفا دیدو
اب درد سے بیکل ہے بیمار چلے آؤ
در در یہ بھٹکتے ہیں سنتا ہی نہیں کوئی
لگ جائے غریبوں کا دربار چلے آؤ
ہے عالم ہستی کا یہ باغ خزاں دیدہ
گل بن کے مہک اٹھے ہر خار چلے آؤ
دنیا کے الم اس کو ہر سمت سے گھیرے ہیں
مصباح ” کا جینا ہے دشوار چلے آؤ