چپے چپے پہ یہاں خلد سجی ہو جیسے
ایسا لگتا ہے مدینے کی گلی ہو جیسے
آمد رحمت عالم کی گھڑی ہو جیسے
علم کی آہنی دیوار گری ہو جیسے
فقر بھی در پہ ترے رشک غنا لگتا ہے
ہر ابوذر ترا عثمان غنی ہو جیسے
آپ جب آئے عرب میں تو یہ محسوس ہوا
سخت اندھیروں میں کوئی شمع جلی ہو جیسے
میرے سرکار ہر اک بچہ تمہارے گھر کا
واقعی سچ میں سخی ابن سخی ہو جیسے
غور سے لوح شفق دیکھو لگے گا اس پر
کربلا والوں کی تاریخ لکھی ہو جیسے
رات دن رہتے یوں گردش میں ہیں چاند اور سورج
لو انہیں گنبد خضری سے لگی ہو جیسے
پرتو رخ سے ترے دن ہوا روشن روشن
زلف بکھری تو لگا شام ڈھلی ہو جیسے
مسجد نبوی میں “مصباح ” ریاض الجنہ
نکہت و نور کی اک بہتی ندی ہو جیسے