امین رحمت یزداں کی آمد آمد ہے
زمیں پہ عرش کے مہماں کی آمد آمد ہے
خوشی منائیں نہ کیسے یہ درد کے مارے
ہر ایک درد کے درماں کی آمد آمد ہے
بیٹھائے گا جو یتیموں کو اپنے کاندھوں پر
اسی انیس غریباں کی آمد آمد ہے
تھے جس کتاب کے ابواب انبیاء سارے
اسی کتاب کے عنواں کی آمد آمد ہے
حکومتوں سے کہو اپنے سر جھکا کے چلیں
وہ دیکھوں فخر سلیماں کی آمد آمد ہے
اب ان کے بعد نہ کوئی رسول آئے گا
کہ آج ختم رسولاں کی آمد آمد ہے
وہ جس کے صدقے میں انسانیت نے پایا شرف
عرب میں آج اس انساں کی آمد آمد ہے
خوشی مناتے ہیں توریت اور زبور انجیل
کہ جگ میں صاحب قرآن کی آمد آمد ہے
میری چومے گی ” مصباح ” ہاتھ غربت کے
وقار بوذر و سلماں کی آمد آمد ہے