اس مضمون کے عنوانات (آپ اس تحریر میں کیا کیا پڑھیں گے)
1- نجف اشرف کی سرزمین پر پہلا قدم۔
2- نجف کی تاریخی و مذہبی اہمیت
3- وادیِ سلام – دنیا کا سب سے بڑا قبرستان
4- کوفہ کا سفر – ایک تاریخی و روحانی مقام
5- بابل اور نینوا – قدیم تہذیبوں کی سرزمین
6- کوفہ کی بنیاد و قبائل
7- حضرت علی علیہ السلام کا مکان
8- مسجد کوفہ – امیر المومنین کی شہادت گاہ
9- دارالامارہ – ظلم و انتقام کی عمارت
10- حضرت میثم تمارؒ اور مسجد حنانہ
11- دریائے فرات کا کنارہ اور کربلا کی دہلیز
12- علقمہ نہر – حضرت عباسؑ کی شہادت کا مقام
13- بین الحرمین – حسینؑ اور عباسؑ کے درمیان
14- مسجد کوفہ سے شام تک – قافلہ اسیری کی یادیں
15- کربلا کا پیغام ، دل میں سلام1
حضرت علامہ و مولانا سید مقتداء حسین جعفری مداری کی خوبصورت تحریر
خون میں ڈوبے ہوئے رنگیں نظاروں کو سلام
نجف اشرف ایرپورٹ سے نکل کر جیسے ہی عراق کی دھرتی پر قدم رکھا تو گرم ہوا اور لو کے تھپیڑوں نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ نہ جانے کتنے تاریخی انقلابات کو دامن میں سمیٹے یہ ملک اپنی تہذیبی اور ثقافتی وراثت کے ساتھ آج بھی پوری دنیا کو سبق آموز پیغامات دیتا نظر آتا ہے۔ تھوڑی دور پر شیر خدا حضرت علی کرم اللہ الوجبہ الکریم کے روضے کا گنبد دہکتے ہوئے سونے کی پیلی رنگت لئے چمک رہا تھا۔ اس شہر کے ہر گوشہ میں دینی ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔
پہلے یہ قدیم شہر مناذرہ کے قریب تھا اور حیرہ کے بادشاہوں کے زیر تسلط تھا۔ اسلامی فتوحات سے پہلے نجف میں صرف عیسائیوں کی عبادت گاہیں تھیں۔ جب سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی آخری آرام گاہ نجف اشرف قرار پائی اس وقت سے یہ مقدس شہر اہل علم کا مرکز بن گیا۔ ہم اس جگہ پر تھے جسکو مقام امام زین العابدین کہا جاتا ہے اور قریب ہی مقام محمد بن حنفیہ اور مقام رقیہ بنت امام حسن علیہ السلام ہے۔ ان مقدس مقامات کی زیارت نے آنکھوں کونئی روشنی اور ذہن و فکر کو بالیدگی عطا کر دی۔ مولائے کائنات کے روضہ مقدسہ کے ٹھیک سامنے دنیا کا سب سے بڑا قبرستان نظر آرہا تھا۔ قدم آگے بڑھتے گئے اور وہاں پر جا کر ٹھہر گئے ۔ جہاں سامنے حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے مقدس مزارات ہیں۔ یہ قبرستان مزار بھی ہے۔ یہ علاقہ ایک قدیم ساسانی شہر سورستان کے پاس تھا جو اس وقت فارس کی سلطنت میں شامل تھا۔ عباسی خلیفہ باردن رشید نے اسکی نئے سرے سے تعمیر کی تھی۔ عثمانیہ خلافت کے زمانے میں عرب قبائل کے حملوں اور پانی کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے یہاں کی آبادی بالکل ختم سی ہو گئی تھی۔ مگر آج مولائے کائنات کے جگمگاتے گنبد کی سنہری چھاؤں میں پورا شہر روشن نظر آ رہا ہے۔ آج دینی مدرسوں، قدیم کتب خانوں، اہل علم دفن ، خوبصورت عمارتوں اور بازاروں کی بنیاد پر بھی اس شہر نے اپنی پہچان بنائی ہے۔
ہماری بس کا رخ کوفہ کی طرف تھا کو فہ نجف اشرف سے ملی ہوئی بالکل متصل آبادی والا شہر ہے۔ جیسے ہی کوفہ پر نظر پڑی ذہن میں اسلام کی تاریخی روایات کے کئی باب کھل گئے۔ اہل علم خوبصورت اور محبان اہل بیت جانتے ہیں کہ کوفہ شہر کا نام آتے ہی سب سے پہلے ذہن ان المناک حادثات و واقعات کی طرف رجوع ہو جاتا ہے جب حرم کی شہزادیوں کو کوفہ کی گلیوں میں بے مقنع و چادر گھمایا گیا تھا۔ عراق کے دارالحکومت شہر بغداد کی دوری یہاں سے ۱۱۶ کلومیٹر ہے اور کر بلا شہر یہاں سے صرف ۵۵ کلو میٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔
جیسے ہی ہماری بس ”بابل“ اور ”نینوا“ کی سرحد میں داخل ہوئی تو حد نگاہ تک سرخ ریت کے ذرات اور خون رنگ بگولوں کی دھند چھاتی چلی گئی۔ آسمان تانبے کی طرح چمک رہا تھا۔ اور کہیں بھی آس پاس بادلوں کا کوئی بھولا بھٹکا ٹکڑا بھی نظر نہیں آرہا تھا زمین سرخ تھی آسمان لال تھا غرض کہ آسمان و زمین کا رنگ ایک سا نظر آ رہا تھا۔ اس سرزمین کا آسمان یقینا نیلا ہوگا۔ زمین پر اشجار اور طیور بھی ہوں گے۔ مگر اس وقت ہماری نگاہ ان ہولناک مناظر کے تصور میں ڈوب چکی تھی جو مناظر اسی شہر کے بادشاہوں نے اپنی المناک آنکھوں سے دیکھے تھے۔
کہتے ہیں کہ کوفہ مملکت بابل اور نینوا کی قدیم ترین بستی ہے اور صدیوں پہلے یہ حضرت نوح کا مسکن رہا ہے اور یہیں انکی اولا د پھلی پھولی اور طوفان نوح کے بعد قبائل اور قافلوں کی صورت میں ادھر ادھر بکھر گئی۔ بحر نوح ہمارے سامنے قرنوں پہلے کی داستان دہرانے کے لئے بے چین دکھائی دے رہا تھا، نمرود بن کوش بن جام بھی یہیں پیدا ہوا اور اسی سرزمین پر اپنی خدائی اور بادشاہت کا دعویٰ کیا۔ قدیم شہر بابل کے کھنڈرات کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر آج بھی نہ مٹنے والی تاریخی نشانیوں کی طرح موجود ہیں۔ جن کو دیکھ کر ہم کبھی خیالات کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر تاریخ کے ابواب کو الٹتے کبھی اپنی آنکھوں کے سامنے ویران پڑے کھنڈرات کا مشاہدہ کرکے صدیوں پہلے رونما ہونے والے واقعات و حادثات کی بگڑی ہوئی تصویروں کو دیکھ رہے تھے۔
اراک، اکاد، سفا، راہو، نینوا، طیر کلح مملکت بابل کی بستیاں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب توریت میں لکھا ہوا ہے کہ ملک بابل کی بنیاد اولا د نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کا گزر بھی ادھر ہی سے ہوا تھا۔ ظہور الاسلام کے بعد نیا کوفہ ۱۷ھ میں حضرت فاروق اعظم خلیفہ دوم کے عہد میں آباد ہوا اور اسکی بنیاد صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص نے رکھی تھی۔ یہ ایک فوجی چھاونی تھی جس میں مختلف جنگجو قبیلوں کے ۴۰ ہزار سے زائد فراد کو بسایا گیا تھا۔ ان میں ۱۲ ہزار یمنی اور ۸ ہزار طرار کے باشندے تھے۔ اس وقت جو قبائل آباد ہوئے ان میں سلیم ثقیف ، همدان، بنو اسد، هوازن، ثعب ، عامر ازد اور محارب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہیں سے مختلف علاقوں میں فوج بھیجی جاتی تھی۔
حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد جب خلافت کا بار مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے کاندھوں پر آن پڑا تو انھوں نے کوفہ کو اسلامی مملکت کا مرکز اور دار الخلافت بنایا۔ بس کے ڈرائیور نے ایک عجیب سے مقام پر بس کو کھڑا کر دیا اور ساتھ چل رہے ٹور کے نمائندے نے جیسے ہی آواز دی کہ ہم لوگ مولی علی علیہ السلام کے مکان پر آگئے ہیں ۔ اچانک میرے ذہن میں چودہ سو برس پہلے کے تاریخی انقلابات کی ایک بحلی سی کو ندھ گئی۔ گزرے ہوئے واقعات کے وہ مناظر جو صرف کتابوں میں پڑھتے رہے تھے آج مشکل کھڑے اپنے وجود کی کہانی بیان کر رہے تھے۔ میں نے دل کو مضبوط کیا اور ایک چوڑی سڑک کے کنارے پر مولی علی کے مکان کو غور سے دیکھنے لگا۔ چہار دیواری کے اندر کھڑے کھجور کے چار پانچ درختوں کو دیکھا جن میں کھجوریں لگی ہوئی تھیں اندر جا کر دیکھا لوگوں کے آنے جانے کی ایک بھیڑی لگی ہے۔ چوڑی چوڑی دیواروں اور چھوٹے چھوٹے کمروں کی قطع تو عجیب سی تھی لیکن در و دیوار اور زمین کے ایک ایک ذرے سے اہل بیت کے تقدس و طہارت محبت و عقیدت اور ان کے گزارے ہوئے زندگی کے لمحات کی خوشبو آ رہی تھی۔ ایک شخص نے نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کمروں کے آگے چھوٹا سا آنگن جو لوہے کے جال سے چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے اس جگہ پر حضرت علی کو زخمی حالت میں لا کر لٹایا گیا تھا۔ اچانک طبیعت نے راہ دی تصورات کی دنیا میں تاریخ کے ابواب ڈھونڈنے لگے میرے داہنے طرف جو کمرہ تھا وہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا تھا۔ جہاں انھونے ۳۵ھ سے ۴۰ھ تک کا وقت گزارا تھا اور چھوٹے چھوٹے کمرے امام حسن اور امام حسین کے تھے۔ جب میں ان مقدس مقامات کی زیارت کر کے باہر نکلا تو جو مناظر آنکھوں کے سامنے تھے اور جن مقامات پر نظریں ٹھہری ہوئی تھیں وہ مقامات گزرے ہوئے حالات و واقعات کی المناک داستانیں دہرا رہے تھے۔
مولا علی علیہ السلام کے مکان سے صرف ۲۰۰ میٹر کے فاصلے پر مسجد کوفہ کی صاف اور نظیف عمارت اور اس کے بلند گنبد اور مینار نظر آ رہے تھے۔ دیکھتے ہی دل تڑپ اٹھا کہ اسی مسجد میں حالت نماز میں ۴۰ھ میں مولا علی کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ وہی مسجد ہے کہ جب سے ۱۷ھ میں مسلمانوں نے کوفہ کا رخ کیا تب سعد بن ابی وقاص نے ”دار الامارہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ حضرت سلمان فارسی کی تجویز پر اس وسیع و عریض مسجد کی تعمیر جدید فرمائی تھی۔ ۳۶ھ میں امام علی مرتضی یہاں آئے تو اس مسجد کی اہمیت! اور اسکی طرف توجہ میں بہت اضافہ ہوا۔ حضرت مولا علی نے یہاں نمازیں پڑھیں منبر پر خطبے دیئے بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا اور آخرکار اسی مسجد میں جام شہادت نوش فرمایا۔ مسجد کوفہ کے متصل حضرت مسلم بن عقیل کا مزار مقدس ہے اور دوسری طرف مختار ثقفی کا مزار بنا ہوا ہے، حضرت حلم بن عقیل کو مسجد کوفہ سے چند قدم کے فاصلے پر شاہ راہ پر شہید کر دیا گیا تھا۔
آسمان آگ کے شعلے برسا رہا تھا گرم ہوا کے چھیڑے جسم کو جیسے پگھلا دے رہے ہوں زمین پر سرخ ذرات کی مٹی اور ایک عجیب سا ہولناک منظر نما ما حول۔ مگر سیکڑوں لوگ ادھر سے ادھر جا رہے تھے کچھ عربی کچھ عجم کے ملکوں سے تعلق رکھنے والے تھے جن کو ان کے لباس سے بخوبی پہچانا جا سکتا تھا۔ میں مولائے کائنات کے مکان کے باہر کھڑا ایک ویران کھنڈر کو غور سے دیکھ رہا تھا کیوں کہ مسجد کوفہ اور مولی علی کے مکان کے درمیان یہ بڑا سا ویران محل کون سا ہے جو کھنڈر میں تبدیل تو ہو چکا ہے مگر ٹوٹی دیواروں کے کچھ نشانات تاریخ کی المناک کہانی بیان کر رہے تھے۔ ایک شخص کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہوا گزر گیا کہ یہ ابن زیاد کا محل ہے اچانک عجم کے کچھ تعلیم یافتہ باشندوں پر نظر پڑی جو ادھر سے گزر رہے تھے کوئی اسکی چہار دیواری پر تھوک رہا تھا اور کوئی نفرتوں کا اظہار کر کے کف افسوس ملتا ہوا گزر رہا تھا۔ یہ کھنڈر وہ ہیں جو دار الامارہ کے ہیں اسکی عمارت کو حضرت سعد بن ابی وقاص نے عہد فاروقی میں بنوایا تھا، مگر یزیدی دور میں یہ عمارت اہل بیت اطہار کے خلاف ظلم وستم کا مرکز بن گئی تھی اسی عمارت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ تاریخ نے کروٹ بدلی انقلابات نے دنیائے انسانیت کے لئے عبرت ناک تاریخ رقم کر دی۔ کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ پھر اسی مقام پر جہاں امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس پیش کیا گیا تھا ٹھیک اسی جگہ ابن زیاد کا کٹا ہوا سر ایک تھال میں رکھ کر مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا، پھر اسی جگہ پر مختار ثقفی کا کٹا ہوا سر اسی دارالامارہ میں مصعب بن عمیر کے سامنے پیش ہوا اور اسی جگہ پر حضرت مصعب بن عمیر کا کٹا ہوا سر عبد الملک کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ سر کاٹ کر حکمرانوں کے سامنے پیش کرنے کی یہ طویل داستان خود ایک ایسی تاریخ بن گئی کہ جب ابن عمیر یشی نے یہ عبرت ناک داستان عبدالملک کو سنائی تو وہ خوف سے کانپ اٹھا اس نے دارالامارہ کی اس عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ عبدالملک کو جب جب یاد آتا کہ وہ محل ہے یہ وہ عمارت ہے کہ جہاں اہل بیت اطہار کی قدسی صفت ہستیاں جن کے تقدس و طہارت پر زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شئی رشک کرتی ہے انکو قیدی بنا کر یہاں لایا گیا تھا۔ ان مناظر کی یاد آتے ہی اس کا رنگ پیلا پڑ جاتا۔ اور وہ کا پینے لگتا تھا۔ اسی لئے اس عمارت کو ہی منہدم کرادیا جہاں منحوس یادوں کے سائے نظر آتے اور اس کے ذہن کو پریشان رکھتے تھے۔ آج وہی محل ایک کھنڈر کی شکل میں گزرے ہوئے وقت کی داستان بن کر رہ گیا ہے۔
ان تفکرات اور خیال آرائیوں سے سبک دوش ہوتے ہی نظریں اٹھا کر دیکھا تو ٹھیک سامنے عاشق مولی علی حضرت میثم تمار کے روضہ کا گنبد صاف نظر آ رہا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد ہم اس مقام پر پہونچے جہاں ایک نہایت قدیم خوبصورت مسجد تھی۔ باہر کے حصے میں جگمگاتے ہوئے بازار کی رونق تھی اگر چہ یہ حصہ نجف اشرف کا ہے مگر کوفہ کی آبادی سے متصل ہے۔ اس مسجد کا نام مسجد حنانہ ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق اس مسجد سے دو عجیب واقعے منسوب ہیں، جب حضرت مولا علی کے مقدس جنازے کو لیکر لوگ رات کے اندھیرے میں کوفہ سے نجف اشرف جا رہے تھے تو اس مسجد کا ایک ستون جھک کر سجدے میں گیا اور خم ہو گیا۔ اس کے حزن و ملال اور غم آلود عمل کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دوسرا المناک واقعہ جو اس مسجد کی تاریخ سے جڑا ہے وہ یہ ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو لیکر کوفہ جارہے تھے۔ تو رات کی تاریکی میں رات گزارنے کے لئے سب سے پہلے سر مبارک کو اسی مسجد میں رکھا گیا تھا، تو اس وقت اس جگہ سے ایک ایسی اونٹنی کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں جس کا بچہ گم ہو گیا ہو۔ وہ جگہ مسجد میں آج بھی ایک ضریح کی صورت میں موجود ہے۔ اس مقدس مقام کو میں نے اپنی آنکھوں سے بوسہ دیا، دل کی دھڑکنیں تیز تھیں اور ایک ایک دھڑکن سے آواز آرہی تھی کہ ”خون میں ڈوبے ہوئے رنگیں نظاروں کو سلام“
امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو جس جگہ رکھا گیا اسکی چشم دید گواه مسجد حنانہ آج بھی صاحب دل ، صاحب ضمیر اور عشاق اہل بیت کو ان تواریخی روایات کو دیکھنے کے لئے دعوت نظارہ دے رہی ہے۔
کر بلا کا فاصلہ کوفہ سے تقریباً ۳۰ میل ۵۵ کلو میٹر ہے۔ جب ہمارے ٹور کے نمائندے نے بس میں لگے ہوئے مائیک سے آواز دی کہ اس وقت ہم دریائے فرات کے کنارے ریگزار کربلا پر ہیں اور یہ وہی مقام ہے جہاں نواسئہ رسول ﷺ کو پیاسا شہید کیا گیا تھا اور یہ وہی دریا ہے اہل بیت اطہار اور خاندان مصطفی کے لوگ جس کے پانی کے لئے تر سے تھے۔ بس سے اتر کر میں فرات کی لہروں کو بل کھاتے ہوئے غور سے دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔ میرا ذہن ۱۳۷۵ برس پہلے یعنی ۶۱ میں پیش آئے سانحے کی طرف مائل ہو گیا۔ جب امام حسین کا قافلہ فرات کے کنارے اتر اتھا۔ میں نے تصورات کے عالم میں یہی کہا کہ
فرات تیرے کنارے حسین آئے ہیں
قدم کو چوم شہ مشرقین آئے ہیں
مگر میری خیالی صداؤں نے فضاؤں میں گھٹ کر دم توڑ دیا اور کناروں سے ٹکراتی ہوئی فرات کی لہروں سے دیر تک مخاطب رہا۔ آخر کار اس المناک حادثے کو نواسئہ رسول ﷺ کے امتحان اور رضائے خالق کا ئنات پر موقوف کرتے ہوئے یہ کہہ کر خاموش کھڑا رہ گیا کہ
میری نظر میں ہے تیری مجبوریوں کا حال
نہر فرات تیری ہر اک دھار کو سلام
کر بلا مملکت بابل کا قدیم خط زمین ہے اور اپنی دہشت وحشت اور لق و دق صحرا کے سبب کرب و بلا کے نام سے موسوم ہے جب مملکت بابل تاراج ہو گئی تو یہ زمین مختلف حصوں میں بٹ گئی جن حدوں کے نام تھے۔ کربلا ، نینوا، غاضریہ، حیرہ اور شط فرات- یہ سب مقامات سلطنت بابل کے میدان اور صحرا ہیں۔ تاریخ میں نینوا کو لکیر نون بتایا گیا ہے اور اس کا رقبہ تین روز کی راہ بتایا گیا ہے
کر بلا دریائے فرات کے مغربی سمت واقع ہے اور اس -سمت کو طف“ یا شط“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دریائے فرات کی ایک شاخ یعنی نہر چھوٹی نہر ۔ جو رضوانیہ سے نکل کر کربلا کے شمالی مغربی ریگستان سے گزرتی ہے اور وہ ”ذوالکل“ کے قریب جا کر دوبارہ دریائے فرات میں مل جاتی ہے۔ یہ علقمہ کہلاتی ہے۔ یہ نہر دریائے فرات سے نکالی گئی ہے۔ ابن علقمی‘ کے دادا جن کا تعلق بنی اسد قبیلے سے تھا انھوں نے اس نہر کو نکالا تھا اور یہی وہ نہر علقمہ ہے جو آل رسول کی پیاس نہ بجھا سکی تھی اور حضرت عباس علمدار کو اسی کے کنارے شہید کر دیا گیا تھا۔ تاریخی روایات میں ملتا ہے کہ جب جگر گوشہ بتول امام حسین علیہ السلام اپنے ۷۲ جاں نثاروں کے ساتھ اس سرزمین پر وارد ہوئے۔ تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے اس جگہ کا نام دریافت کیا کسی نے نینوا بتایا کسی نے عمور بتایا اور کسی نے کر بلا بتایا۔ امام مظلوم نے کر بلا کا نام سنتے ہی قافلہ کو وہیں روک دیا اور دلگیر لہجے میں کہا کہ ہماری منزل آگئی ہے دو پہر کی دھوپ ڈھل چکی تھی ، شام کا سہانا وقت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دنیا والوں کو خوشگوار ماحول کی نعمتیں بانٹ رہا تھا۔ میں نے اپنے دل کی ویران سی آرزوؤں اور تمناؤں بھری دنیا کو اس وقت آباد ہوتے دیکھا۔ جب کر بلا کی مقدس سرزمین پر قدم رکھا۔ نگاہیں بے چین و پریشان ہو کر ان بلند و بالا عمارات کو دیکھ رہی تھیں۔ جو شام کے قرمزی رنگ میں ایک نہایت ہی خوبصورت شہر کا نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ اچانک سونے کی رنگت میں نہائی ایک بلند عمارت پر نظر ٹھہر گئی۔ یہ امام حسین علیہ السلام کا روضہ انور تھا۔ اور جیسے ہی پیچھے کی طرف نگاہ ڈالی تو حضرت مولی عباس کے روضہ کا وسیع و عریض گنبد زمین کربلا کے واقعات و سانچے کو زبان حال سے بیان کرتا نظر آ رہا تھا۔ جس جگہ پر میں کھڑا تھا یہ جگہ بین الحرمین کہلاتی ہے کیوں کہ ایک طرف امام حسین علیہ السلام کا حرم ہے اور ٹھیک سامنے دوسری طرف مولی عباس کا حرم ہے۔ تھوڑی ہی دور پر خیمہ گاہ ہے جہاں پر آل رسول ﷺ نے اپنے خیمے نصب کئے تھے، شام کے اس حسین و جمیل وقت کو میں اپنی آنکھوں میں بسا کر ساری زندگی کے لئے محفوظ کر لینا چاہتا تھا کہ اچانک میری نگاہ غروب ہوتے ہوئے سورج پر پڑی، میں نے اس سے پوچھا کہ اے ڈھلتے ہوئے سورج تو ہی بتا عاشور کے دن کیا کیا دیکھا۔ پھر میں نے تصور کی آنکھ سے ماہ محرم ۶۱ھ کے سورج کو آگ برساتے اور ریگزار نینوا کو سلگتے ہوئے دیکھا تو ان واقعات کا خیال آیا کہ فضا میں گرد چھائی ہوئی ہے اور مٹھی بھر شہ سوار اللہ کی بارگاہ میں جھکے ہوئے ہیں۔ افواج یزید کے گھوڑے خیمہ سادات کو گھیرے ہیں۔ ان خیموں سے العطش العطش کی آوازیں آرہی ہیں۔ بچے پیاس سے بلک رہے ہیں۔ دریا پر پہرے ہیں، تین روز ہو چکے ہیں۔ مدینے کے ان مسافروں نے پانی کی بوند تک نہیں دیکھی۔ پھر تیر برستے ہیں نیزے چمکتے ہیں، تلوار لہراتی ہیں، گردنیں کٹتی ہیں ، باز و قلم ہوتے ہیں۔ یہ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز کیسی ہے؟ یہ کس کی لاشوں کو روندا جا رہا ہے یہ کس کا خون نہر علقمہ کے پانی کو نگیں کر رہا ہے۔
پھر میں نے محسوس کیا کہ کربلا کا ہر ذرہ خانوادہ نبی کی مظلومیت کی گواہی دے رہا ہے۔ فرات کے پانی کی ہر مرج مصائب حسین پر اشک بار نظر آرہی ہے۔ ایسا لگا کہ نینوا کی فضا میں جیسے بہت سے رجزیہ اشعار اور بہت سے مرشئے رچ بس گئے ہیں۔ میرے دل سے بے اختیار یہ آواز آئی کہ اے بسیط بیکراں اور ائے ریگزار کر بلا تم نے اس لٹے پٹے قافلے کو ضرور دیکھا ہوگا جو مدینے سے چلا تھا اور کربلا میں لٹا تھا۔ ہاں میں اسی قافلے کی بات کر رہا ہوں جس کی قیادت ایک بیمار نوجوان کے ہاتھ میں تھی۔
جس قافلے کے قدم شام کی طرف بڑھ رہے تھے اور نگاہیں مدینے کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ وہ غریب الوطن لوگ ادھر ہی سے گزرے تھے ان کے آگے نیزہ بردار تھے اور ان کے نیزوں پر چاند سے مکھڑے ٹنگے ہوئے تھے۔ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا اور آگے کچھ بھی کہہ سکنے کی تاب نہ لا سکا۔
السلام اے راکب دوش پیمبر السلام
السلام اے معنی آیات کوثر السلام
نیزه ظلم و ستم از سینۂ اکبر کشید
اے مخضب ریش تو از خون اصغر السلام
(ابو المشرب)
allama syed muqtida husain jafari madari makanpur sharif