کوفہ تری دھرتی پہ دو آئے ہوئے بچے
گلہائے رسالت ہیں مرجھائے ہوئے بچے
کچھ خواب میں فرمایا سرکار رسالت نے
لیٹے ہیں گلے باہم گھبرائے ہوئے بچے
مجبور ہیں بے کس ہیں جائیں تو کہاں جائیں
غربت میں تیمی سے گھبرائے ہوئے بچے
پاتے نہیں چھپ نے کی صحراء میں بھی جا کوئی
طوفان مظالم سے ٹکرائے ہوئے بچے
جس طرح سے چھاتی ہے بدلی مہ کامل پر
یوں گرد سے ہیں دونوں دھندلائے ہوئے بچے
کہتے ہیں کہ اے ظالم کر قتل مجھے پہلے
اس جینے سے ہیں شاید اکتائے ہوئے بچے
ظالم بھی لرز اٹھے جس وقت کہ پہنچے ہیں
دربار میں سر اپنا کٹوائے ہوئے بچے
گذریں تو شہادت کو صدیاں ہیں مگر اب بھی
احساس پہ دنیا کی ہیں چھائے ہوئے بچے