بچھڑ کے تجھ سے گلستاں بھی اک عذاب لگے
ترے جوار کے کانٹے ہمیں گلاب لگے
رخ مدار پہ ایسا ہمیں نقاب لگے
کہ جیسے ابر کے پردے میں آفتاب لگے
سرور عشق مدار جہاں کا کیا کہنا
نہ چھوٹے عمر میں منہ جس کے یہ شراب لگے
ہے جس پہ آپ کی چشم کرم مرے آقا
اسے حیات کا ہر لمحہ کامیاب لگے
تمہارے بحر کرم سے ہے رابطہ جس کا
اسے امنڈتا سمندر بھی اک سراب لگے
اٹھا دیں آپ جو پرده رخ منور سے
تو پھر حقیقت کونین بے نقاب لگے
مدار دو جہاں قطب مدار زنده ولی
ہمیں ہے پیارا تمہارا ہر اک خطاب لگے
ترے جمال سے رشتہ ہے جس کی راتوں کا
نہ کیوں پھر اس کو سہانا ہر ایک خواب لگے