madaarimedia

بچھڑ کے تجھ سے گلستاں بھی اک عذاب لگے

 بچھڑ کے تجھ سے گلستاں بھی اک عذاب لگے

ترے جوار کے کانٹے ہمیں گلاب لگے


رخ مدار پہ ایسا ہمیں نقاب لگے

کہ جیسے ابر کے پردے میں آفتاب لگے


سرور عشق مدار جہاں کا کیا کہنا

نہ چھوٹے عمر میں منہ جس کے یہ شراب لگے


ہے جس پہ آپ کی چشم کرم مرے آقا

اسے حیات کا ہر لمحہ کامیاب لگے


تمہارے بحر کرم سے ہے رابطہ جس کا

اسے امنڈتا سمندر بھی اک سراب لگے


اٹھا دیں آپ جو پرده رخ منور سے

تو پھر حقیقت کونین بے نقاب لگے


مدار دو جہاں قطب مدار زنده ولی

ہمیں ہے پیارا تمہارا ہر اک خطاب لگے


ترے جمال سے رشتہ ہے جس کی راتوں کا

نہ کیوں پھر اس کو سہانا ہر ایک خواب لگے
  ——

—–

Leave a Comment

Related Post

Top Categories