آجائے خلد دامن عصیاں شعار میں
تربت اگر مری ہو جوار مدار میں
کانوں میں جب ہے آتی صدا دم مدار کی
جھنکار اٹھنے لگتی ہے ہر دل کے تار میں
چہرے سے کب نقاب اٹھاتے حضور ہیں
ہم دیر سے کھڑے ہیں اسی انتظار میں
دربار جس نے دیکھا ہے قطب المدار کا
کیا پائے وہ گلشن جنت بہار میں
ذلت سے اب بچائیے صدقہ رسول کا
گرتے ہی جارہے ہیں مسلمان غار میں
ہم بہر نذر قطب جہاں لے کے آئے ہیں
کچھ آرزو کے پھول دل داغدار میں
دھڑ کے جو دل یہاں تو مدینے میں ہو خبر
تاثیر اتنی چاہئے مجھ کو پکار میں
مالک یہی ہے دل کی تمنا کہ روز حشر
محضر کا نام بھی ہو غلام مدار میں