اسے بھی حقارت سے مٹی نہ کہیے وہ خاک شفا جو یہاں اڑ رہی ہے
یہ اس سرز میں کی ہیں پر نور گلیاں جہاں روضۂ پاک زندہ دلی ہے
مکنپور اک سمت اک سمت طیبہ میں ہوں درمیاں اب مجھے کیا کمی ہے
مرے اک طرف ہے کرم کا سمند ر مرے اک طرف فیض کی اک ندی ہے
جو انوار غوث الوری بن کے چکا وہ بی بی نصیبہ کی آنکھوں کا تارہ
نہ کیوں زندگی پاتا آقا نے اس سے کہا تھا کہ تو جان من بنتی ہے
ٹھہر جا زمانے کی گردش ٹھہر جا ابھی اور بھی دیکھنے دے یہ روضہ
نہیں مطمئن میری ذوق نظر ہے نگاہوں میں ہاتی ابھی تشنگی ہے
ہر اک دل میں ہے حاضری کی تمنا اسے ہر کوئی چومنا چاہتا ہے
حسیں کس قدر ہے تیرا آستانہ تری جالیوں میں عجب دلکشی ہے
جو آئے یہاں ہو تو اے آنے والو محبت کے سانچے میں دل اپنا ڈھالو
یہاں آئینہ اپنے دل کو بنا لو مدار جہاں کی نظر دیکھتی ہے
ترے نام کی سب ہی جیتے ہیں مالا نہ جانے بھرے آج کس کا پیالا
جو دولہا کو بھا جائے دلہن وہی ہے پیا جس کو چاہے سہاگن وہی ہے
جو الفاظ دل سے نکلتے ہیں محضر مچلتے لبوں پہ ہیں وہ درد بن کر
مناقب کہوں مجھ کو توفیق دیجے مرے آقا میری تمنا یہی ہے