بسایا ہم نے ہے اے دوست جس کو مشکل سے
اب اس خیال سے کیسے نکال دوں دل سے
دکھا رہی ہے گناہوں کو میری شام کا رنگ
وہی سحر جسے پایا تھا میں نے مشکل سے
یونہی جو اٹھتے برابر رہے قدم اپنے
ضرور ہوں گے کبھی سرفراز منزل سے
اگر ہے اپنے ارادوں میں حسن استقلالا
تو اپنی کشتی لگے گی ضرور ساحل سے
سکھایا ہم نے سلیقے سے بیٹھنا جن کو
اٹھا رہے ہیں وہی ہم کو آج محفل سے
ستارے تو ہیں بڑی چیز نرم غم لے کے
خود اپنے آنسو فراہم ہوئے ہیں مشکل سے
میرے نصیب میں تو ہے قفس کی تنہائی
اٹھاؤں لطف میں کیسے چمن کی محفل سے
ہے نظم و ضبط میں یہ کیسی امبری پیدا
ہہ کون اٹھ کے گیا ساقی تیری محفل سے
اٹھا نہ پائے جو ہستی کا بوجھ خود نیر
نظر ملائے وہ کیا بار غم کے حامل سے
basaya humne humne hai aye dost jisko mushkil se
غزل : حضور ببن میاں علامہ نیر مکنپوری