پیاس سے ہیں جاں بلب کچھ حوصلہ دو مصطفیٰ
انگلیوں سے فیض کے چشمے بہا دو مصطفیٰ
کثرت غم میں بھی جینے کی ادا دو مصطفیٰ
درد اپنا دل کے گوشوں میں بسا دو مصطفے
خانۂ بے نور ہے اس کو ضیاء دو مصطفے
شمع اپنے عشق کی دل میں جلا دو مصطفى
جس سے آقائے زمانہ بن گئے حضرت بلال
ایسا جذبہ عشق کا بہر خدا دو مصطفى
گل نہ کر پائیں جسے ظلم و جفا کی آندھیاں
اک چراغ ایسا مرے دل میں جلا دو مصطفیٰ
گر ہی کی ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے
ان اندھیروں میں ذرا سا مسکرا دو مصطفیٰ
میں کسی کے بھی سہارے کا تمنائی نہیں
بے سہارا ہوں مجھے تم آسرا سے دو مصطفى
محو کرکے آنکھوں سے ہر منظر کونین کو
اپنی صورت کا مجھے شیدا بنادو مصطفى