جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے
یہ رفعت قسمت روح الامیں معلوم ہوتی ہے
محبت آپ کی دل میں مکیں معلوم ہوتی ہے
مری تقدیر بھی سدریٰ نشیں معلوم ہوتی ہے
جہاں پہ رکھ دئے ہیں پاؤں سرکار رسالت نے
زمیں وه نازش عرش بریں معلوم ہوتی ہے
کرم بے کس پہ فرما دیجئے آقا کہ طیبہ تک
رسائی کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی ہے
دیار نور سے نزدیک تر ہم آگئے شاید
جھکی فرط عقیدت سے جبیں معلوم ہوتی ہے
اسی سے ماہ وانجم اکتساب فیض کرتے ہیں
مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
نگاہ غور سے دیکھو تو کوئی بھی عبادت ہو
ادائے رحمۃ اللعالمیں معلوم ہوتی ہے
کرم یہ نسبتِ سرکار کا ہے جو تجھے محضر
مدینے کی ہر اک شے دل نشیں معلوم ہوتی ہے